بابے بناں بکریاں نئیں چردیاں

17

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یہ وہ نعرہ تھا جونہی ایک جوشیلے ورکر کے منہ سے نکلا لوح محفوظ پر ثبت ہوگیا اور پھر وقت کا پہیہ 14اگست 1947 کو آکر رکا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان نمودار ہوا۔ ہر سو مسلمانان ہند کے گھروں میں شادیانے بجے۔ گلی گلی میں پاک سر زمین کے ترانے سنے گئے۔ امید۔ امنگ اور ترنگ کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی(صبا نے پھر درزنداں پہ آکر دستک دی۔۔۔سحر قریب ہے۔ دل سے کہو نہ گھبرائے) اس سحر کو سامنے لانے کے لئے حضرت قائد اعظم پوری طرح متحرک ہو گئے اور پھر مخالف قوتوں نے بھی کمر کس لی۔ اس کے بعد تو خوفناک کھیل شروع ہوگیا۔ ہندوستان میں خوش وخرم زندگی بسر کرنے والوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا بلکہ کیا کیا نہ کیا گیا۔ عصمتیں لوٹی گئیں۔ ان گنت لوگوں کو راستے میں تہ تیغ کردیا گیا۔ جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ سارا کچھ لوٹ لیا گیا اور لٹے پٹے یہ قافلے جب پاکستان میں پہنچے تو آگے صرف خواب تھے اور خواب دیکھنے کے لئے گہری نیند کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان حالات میں کہاں نیند آتی ہے۔ کشمیر اور حیدر آباد کی ریاستوں میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ اپنا کھیل کھیلنے لگا۔ ریڈ کلف ایوارڈ میں پہلے ہی ڈنڈی مار دی گئی تھی۔ وسائل کی تقسیم میں پرلے درجے کی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ تھی طلوع صبح اور آفرین قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت۔ مستقل مزاجی اور حوصلہ مندی۔ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے والا بابا۔ آخر کب تک لڑتا اور تقدیر کا بھی ایک اپنا کھیل ہے۔ 11ستمبر 1947 کو تھک ہار کے ابدی نیند سوگیا( جس گھر دا مالک گھر نہ ہووے اس گھر دے سارے نئیں سوندے) اور بابے بناں بکریاں نئیں چردیاں۔بابا وقت کی اہمیت کو جانتا ہے۔ بابا آنکھیں کھول کے رکھتا ہے۔ بابا گزرے دنوں کو بھی جانتا ہے اور آنے والے دنوں پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔ وہ خواب دیکھ چکا ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لئے مسلسل برسرپیکار ہے۔ آگے بڑھنے والے منزل پر پہنچ کرہی دم لیتے ہیں اور اگر بابا ہی نہ رہے تو پھر۔ بابے کے وارثوں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ہوشمند وارث ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا
یہ ہے ہمارا تاریخی پس منظر اور آج ہیں ہم آزاد شہری اور افسوس ہم تاریخ سے کٹ گئے اور پھر ہم نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان عددی لحاظ سے زیادہ ہوتے۔ پاکستان اس لئے بنا تھا کہ انگریز ہندوستان کو توڑنا چاہتے تھے اور قائد اعظم گورنرجنرل کیوں بنے جب کہ ہندوستان والوں نے اپنا گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن بنا لیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ جب وارث وراثت میں ملنے والی چیزوں کی حفاظت نہ کر سکیں تو ان کی حتی المقدور کوشش یہ ہوتی ہے کہ مدعا بزرگوں پر پھینک کر سرخرو ہو جایا جائے۔ کاش ان کو کوئی سمجھائے کہ سرخی پوڈر کا ایک حد تک اثر ہوتا ہے۔ اصل تو پھر اصلیت ہی ہوتی ہے اور اصلیت نے ایک نہ ایک دن کھل کر سامنے آنا ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ بلاشبہ انگریز ہندوستان چھوڑنا چاہتے تھے اور ہندو ہندوستان کی تقسیم کو موت سمجھتے تھے اور موخرالذکر اکثریت میں تھے۔ قائد اعظم نے 23 مارچ کو تقسیم ہند کا مطالبہ کر کے انگریزوں اور ہندوؤں پر واضح کردیا تھا کہ ہم لے کررہیں گے پاکستان۔ اور پھر پوری جدوجہد سے ہندوؤں کے عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور پاکستان کا نعرہ حقیقت بن گیا۔ متحدہ ہندوستان میں اکثریت نے فیصلے کرنا تھے اور اکثریت بہر حال ہندوؤں کی تھی جب کہ آزاد ملک پاکستان میں سانس سے لے فیصلے کرنے تک سب کام مسلمانوں نے کرنا ہیں۔ مسلم دنیا میں ایک جاندار آواز پاکستان۔ ہم ہی یہاں وزیر کبیر بنیں گے اور ہم ہی اپنی نمائندگی کریں گے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن تو کوشش کرے گا کہ پاکستان اور ہندوستان میں ہمارا کسی نہ کسی شکل میں کوئی کردار رہے ایسے تو نہ وہ گورنر جنرل بننا چاہتا تھا۔ ہمارا بابا اس وقت تک زندہ تھا اور وہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا تھا۔ افسوس اس کے وارث اور وہ بھی لاوارث جو سارے ثبوت سورج طلوع ہونے سے پہلے غائب کردیتے تھے۔ وہ آپس میں دست وگریبان ہو گئے۔ انہوں نے اپنی بقا اور انا کی تسکین کے لئے غیروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا بلکہ غیروں کی گود میں جہاں بیٹھ گئے وہاں بیٹھ گئے۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا زورازوری لے گیا اور اپنی تجوریاں بھر کر اپنے آپ کو جاگیردار اور سرمایہ دار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ قانون کو ہر کسی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور قانون کے رکھوالوں کے ہاتھ مکمل طور پر باندھ دیئے گئے۔ آئین کو ردی کا ٹکڑا بنا کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال کیا گیا۔ امیر امیر اور غریب غریب ہوتا چلا گیا اور وسائل کی تقسیم کی بات تقریروں اور تحریروں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ نعروں۔ لاروں اور پھر لاشوں پر سیاست کی عمارت تعمیر کی جانے لگی۔ اقتدار کی بھوک نے راہنماؤں کو بالکل اندھا کردیا اور سب نے مل کر “ان” مچادیا۔ ادارے بھی اس گھناؤنے کھیل میں کھل کر سامنے آگئے اور یوں آج کا دن آگیا اور ہم باتیں بنانے “جوگے” رہ گئے۔ ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں ہمارا بابا کام کرتا تھا
ہماری کاہلی۔سستی۔ہٹ دھرمی۔ نالائقی اور مجرمانہ غفلت کا اندازہ بھی ہمارے قائد کو تھا شاید یہی وجہ ہے کہ آخری وقت تک کام، کام اور کام کی صدا لگاتا رہا۔ یوں اس کی وصیت بھی کام سے متعلقہ تھی اور وصیت پر عمل کرنے کے لئے وارث شرعی طور پر پابند ہوتے ہیں۔ افسوس عالم فاضل بھی چپ ہو گئے ہیں شاید وہ بھی مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب مصلحت کو زندہ درگور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.