لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا راستہ
روداد خیال
صفدرعلی خاں
پاکستان کے عوام کو ریلیف دینے کی سردست کوئی صورت نظر نہیں آرہی ،نگران حکومت نے پہلی بار جو پٹرول کے نرخ کم کئے ہیں اسے قوم نے مسترد کرتے ہوئے سستی شہرت کا ذریعہ قرار دیا ہے ،عوامی سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی کا اعلان اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے کیونکہ اس کمی پر مہنگائی کم ہوگی نہ ٹرانسپورٹ کے مہنگے کرائے کم ہوسکیں گے ۔حکومت نے پٹرولیم کے نرخوں میں معمولی کمی کرکے صرف اپنی ساکھ بچانے کی شعوری کاوش کی ہے،دوسری طرف ایل پی جی کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ کر کے پٹرول کی قیمت کم کرنے کی کسر نکال لی ہے ۔پاکستان پر کئی بحران نازل ہورہے ہیں ،دہشتگردی نے ملک کی جڑیں کاٹنا شروع کررکھی ہیں ،گزشتہ دنوں میلادالنبی کے جلوس میں خودکش دھماکے میں 60سے زائد مسلمان شہید اور سنیکڑوں زخمی ہوئے ،ملک میں ایک طرف سیاسی عدم استحکام کی لہر نے معاشی جمود پیدا کررکھا ہے تو دوسری جانب رکرپشن اور مالیاتی بدنظمی نے حالات سنگین بنانے میں کردار نبھایا ہے ۔سنگین صورتحال پر حکمرانوں نے بجلی اور پٹرول مہنگا کرکے مالیاتی بحران کو وقتی طور پر ٹالنے کا ایک آسان طریقہ اختیارکررکھا ہے ۔بجلی اور پٹرول مہنگا ہونے سے فوری طور پر ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے اور مہنگائی کا ایک لامتناہی سیل بیکراں امڈ آتا ہے ۔اس بار تو بجلی کے ہوشربا بلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، پاکستان بھر میں بجلی کے ناجائز بلوں سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ۔ حکمران آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی غلامی میں عوام کو زندہ درگور کرنے پر اتر آئے ۔لوگوں نے گھر کی قیمتی چیزیں بیچ کر بل ادا کیے ہیں اور جو ادائیگی نہیں کر سکے ان میں کچھ دل برداشتہ خودکشیاں پر اتر آئے ۔بجلی کے نرخوں میں مگر مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا جس پر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی اقتدار جلا دینے والی لہر چلی جس پر نگران حکومت کی جانب سے عوام کو اس مد میں فوری ریلیف دینے کی خاطر کئی اجلاس بلائے گئے مگر سب بے نتیجہ نکلے یہی سبب ہے کہ ملک بھر میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ،آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں تاجروں اور پولیس کے درمیان تصادم نے حالات مزید خراب کئے ہیں۔آزاد کشمیر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں اور کروڑوں روپے مالیت کے بجلی کے بل نذر آتش کر دئیے گئے ہیں۔بجلی کے بلوں میں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت کے خسارے پورے کرنے اور حکمرانوں کی جانب سے لیے گئے قرضے اتارنے کے لئے رنگ برنگے ناجائز ٹیکس لگائے جاتے ہیں وہیں بجلی کی پیداوار کا نجی انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (IPPs) کے شکنجے میں ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ ان پاور پلانٹس کے مالکان کو حکومتوں کی جانب سے وہ پیسے بھی ڈالرز کی شکل میں ادا کیے جاتے جن کے عوض بجلی کی پیداوار بھی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں یہ پلانٹس انتہائی مہنگے داموں بجلی حکومت کو فروخت کر کے ہوشربا منافعے کماتے ہیں۔ یہ کھلی لوٹ مار کے مترادف ہے، ہزاروں ارب روپے یہ نجی پاور پلانٹ اب تک عوام کی جیبوں سے نکال چکے ہیں۔
اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ کھلی لوٹ مار کے ان معاہدوں کو ہر حکومت نے توثیق دیکر انکے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کسی بیرونی طاقت نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی غلط منصوبہ بندی ، اقربا پروری سے لے کر کرپشن کے ناسور تک بربادی کی تاریخ خود لکھ رہے ہیں ۔پاکستان کومالی بے ضابطگیوں سے لے کر کھلی کرپشن سے نجات دلاکر معیشت بہتر بنانے کے وعدے تو بہت ہوئے مگر کسی نے بھی اقتدار ملنے پر اپنے منشور اور وعدوں پر من وعن عملدرآمد نہیں کیا ،ہمارااپنا خیال ہے کہ اگر یہ تمام سیاستدان اپنی سیاسی جماعتوں کے منشور پر ہی عمل کرلیتے تو آج میرے وطن کی یہ حالت کبھی نہ ہوتی ،مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے سیاستدان،بیورکریٹس اور اشرافیہ اس ملک کو اپنا سمجھتے ہی نہیں اور میری اس بات کی صداقت یوں بھی طشت ازبام ہے کہ پاکستان کی وجہ سے امیر ہونے والوں کی بیرون ممالک جائیدادیں اور اربوں ڈالر ہیں جو اگر ملک میں واپس لائے جائیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔کیوں نہ ہم غیر ملکی ساہو کاروں کی غلامی اختیار کرنے کی بجائے اپنوں کی اپنی رقمیں وطن لانے کا بندوست کریں ۔
آخر میں ممتاز شاعر زاہد عباس سید کے دو شعر پیش ہیں ۔
سمندر کو جو صحرا کرگئے ہیں
وہی صحرا کے اندر مرگئے ہیں
۔۔۔
زمانہ ان کو مہلت دے رہا ہے
جو غلطی سے کسی کےگھرگئے ہیں