ارے بجلی، مفلسی اک جرم ہے

36

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی

کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں بلکہ زاتی مفادات ہوتے ہیں۔ ایسی ہی سیاست کی بد ترین شکل ہمیں پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں اشرافیہ نے وسائل اپنے لیے اور مسائل عوام کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ نا اہل حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اس ملک میں مفلس اور متوسط طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس پس کر یہ کہنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ مفلسی اک جرم ہے۔ شاعر ریاض خیر آبادی نے پاکستان میں مفلس کی زندگی پر کیا خوب شعر کہا ہے:

مفلسوں کی زندگی کا زکر کیا
مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عوام کو بنیادی ضروریات بھی آسانی سے میسر نہیں۔ ادویات کی قیمتیں، تعلیم کے اخراجات اور گندم کے ریٹ سن کر انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔ روزگار اور انصاف کے معاملات بھی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پالتو جانوروں کی زندگی مفلس عوام سے کہیں درجہ بہتر ہے کیونکہ پالتو جانوروں کو پاکستان کے مفلس عوام کے مقابلے میں وقت پر کھانا، توجہ، تحفظ اور رہنے کو جگہ تو مل ہی جاتی ہے۔ غریب بے چارہ کسی نہ کسی طرح دن گزارتا جاتا ہے لیکن مہینے کے آخر میں بجلی کا بل دیکھ کر اس کی جان نکل جاتی ہے۔ یہ بل نہیں بلکہ موت کا کرنٹ ہوتا ہے۔ مہنگائی کے الزام لگا کر اک دوسرے کی حکومتیں گرانے والے عوامی مجرم نمائندے شکلیں اور انداز بدل بدل کر آتے ہیں اور انتخابات سے قبل عوام سے ہمدردی کے دعوے کر کے بعد میں صرف درد بانٹتے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں تمام پارٹیوں نے مل کر اک پارٹی کی حکومت گرانے کے بعد اپنی اپنی الیکشن مہم میں مہنگائی ختم کرنے بالخصوص بجلی سستی کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ عام آدمی کے لیے 200 سے 300 یونٹ فری کرنے کے اعلان کیے گئے تھے مگر اقتدار ملتے ہیں ہر چیز کے ساتھ ساتھ بجلی بھی کئی گنا مہنگی کر کے عوام کے لیے ریلیف کے بجائے تکلیف کا بندوبست کر دیا گیا۔
بھولے بھالے پاکستانی ہر بار مختلف دلفریب نعروں سے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ انہی فریبیوں کو اپنے ہر درد کا مداوا بھی سمجھے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مفلس کے درد کو صرف غریب ہی سمجھ سکتا ہے۔ جن نمائندوں کو ہم انتخابات میں ووٹ دے کر ایم پی اے اور ایم این اے بناتے ہیں وہ غریب کا درد بالکل نہیں سمجھ سکتے کیونکہ انہوں نے کبھی مفلسی کا سامنا ہی نہیں کیا ہوتا۔ بفرض محال اگر کوئی نمائندہ غریب یا متوسط طبقے سے آگے آ بھی جائے تو یہ سسٹم اسے چلنے ہی نہیں دیتا۔ دوسرا ہر سیاسی اپنی جماعت کی اچھی بری پالیسیوں کو ڈیفنڈ کرتا ہے اس لیے عوام کو صرف جھوٹ موٹ کی تسلیوں سے ٹالا جاتا ہے۔ اگر نمائندہ حسب اختلاف سے ہو تو وہ بھی مفلس کے لیے صرف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر کھڑا ہوتا ہے۔ جب مقصد حل ہوا تو پھر وہی فریب کاریاں سٹارٹ اور مفلس کے موت سے بھی بد تر درد شروع۔ بقول بیکل اتساہی:

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں روٹی زہریلی بھی میٹھی لگتی ہے

پچھلے کچھ عرصے سے بجلی کا بل غریب اور متوسط طبقے کی چینخیں نکال رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگ بجلی کا بل ادا کرنے کیلیے اپنا قیمتی سامان بیچ رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال سابقہ حکمرانوں کی ڈیم بنانے کے بجائے پرائیویٹ کمپنیوں(IPPS) سے بجلی خریدنے کو ترجیح دینے کے باعث ہوا ۔پہلے 2008 میں پیلزپارٹی نے پرائیوٹ بجلی گھر کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیا اور پھر 2013 میں نوازشریف نے مہنگا معاہدہ کیا جو 2028 تک تھا۔ اس معاہدے کی رو سے بجلی گھر، بجلی بنائے یا نہ بنائے حکومت کو ہر حال میں ادائیگی کرنی ہوگی۔ لوڈ شیڈنگ کے وقتی خاتمے کی پالیسی نے تباہ کن معاہدوں کے زریعے پاکستان کی معیشت کو ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ اب کچھ بھی سنبھل نہیں پا رہا۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ گورنمنٹ کی سرپرستی میں یہ IPPs مفلس عوام کا گوشت نوچ رہی ہیں۔

ان IPPs یعنی بجلی پیدا کرنے والے ان 90 پرائیویٹ اداروں نے پچھلے تیس سال میں پاکستان کو تباہی اور مفلس عوام کو موت کے دھانے تک پہنچا دیا ہے۔ آپ کی معلومات کے لیے بجلی پیدا کرنے والے ان نجی اداروں کے مالکان کی شرح کچھ یوں ہے:
68 فیصد نون لیگی اور پیپلز پارٹی
10 فیصد حکومت
8 فیصد چین کے سرمایہ کار
7 فیصد عرب کے سرمایہ کار ( قطری)
7 فیصد پاکستانی سرمایہ دار

یعنی کل اداروں کا 78 فیصد صرف تین گروپس ( شریف ، زرداری ، حکومت) کی ملکیت ہیں۔یہی وہ لوگ یا گروپس ہیں جن کے پاس پاکستان کی تمام شوگر ملز ، سٹیل ملز ، سیمنٹ ، کھاد ، کپڑے ، بنک ، LPG اور گاڑیاں بنانے کے لائسنس بھی ہیں ۔

یہ بجلی گھر پاکستان کی کل ضرورت کا صرف 48 فیصد پیدا کرتے ہیں جبکہ ان کا معاہدہ 125 کا تھا۔ یعنی قیمت 125 فیصد کی وصول ہورہی ہے مگر کام صرف 48 فیصد۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہءِ توانائی کا گردشی قرضہ 2310 ارب روپے کی سطح تک پہنچ چکا ہے جو ادائیگیوں کے باوجود کم نہیں ہو پا رہا۔ ہم دراصل نہ ملنے والی بجلی کا بھی 75 فیصد بل ادا کر رہے ہیں۔ اب مختلف ٹیکسوں کی صورت میں بات وہاں تک جا پہنچی ہے کہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔
میاں نواز شریف کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اور ویلکم ٹو پرانا پاکستان کی آوازیں نکال کر بنائی گئی حکومت نے مہنگائی کی رہی سہی کسر بھی نکال کر رکھ دی ہے۔ اب عوام سخت گرمی میں بھی پنکھا لگاتے ہوئے ڈرتی ہے کہ اگر بل 200 یونٹ کو کراس کر گیا تو گھر کا سامان یا کوئی عضو بیچ کر ادا کرنا پڑے گا۔ دنیا میں بجلی پر کاریں اور دیگر زرائع آمدورفت چلانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں مفلس عوام بجلی کا بلب اور پنکھا چلانے سے بھی کتراتے ہے۔ مفت بجلی استعمال کرنے والے صدر، وزیراعظم، جج، سیاست دان، بیوروکریٹس اور دیگر متعلقہ ملازمین سے بجلی کے مسائل حل کرنے کی امید رکھنا شکاری سے شکار نہ کرنے کی امید رکھنے کے برابر ہے۔
پاکستان میں مفلس اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ بجلی کے بلوں میں طرح طرح کے ٹیکس اور کیٹگریاں لگا کر مفلس عوام کو فاقوں، جھگڑوں، چوریوں، ڈاکوں، اغواء اور خودکشیوں پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ عجیب اندھیر نگری مچی ہوئی ہے۔ ملک میں وسیع پیمانے پر بے اطمینانی اور احتجاج کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ بجٹ 2024 کی مہنگائی کا طوفان ابھی جاری ہی ہے کہ آئ ایم ایف نے گیس بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جولائی کے دوسرے ہفتے میں اس مقصد کے لیے آئ ایم ایف کے نمائندوں کی آمد متوقع ہے۔ کچھ اضافہ ہو چکا اور مستقبل میں گیس بجلی مزید مہنگی ہونے کا قوی امکان ہے۔ توانائی کے شعبے میں تقریباََ 14 ارب ڈالر کے گردشی قرضے نے اتنا مالیاتی دباؤ ڈال دیا ہے کہ اب اس شیطانی چکر کا بوجھ صارفین پر ڈال کر وقت گزارا جارہا ہے۔ یہ بوجھ بھاری بلوں کی صورت میں مفلس و متوسط عوام کی زندگی کو موت سے بھی بدتر کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان اس بحران سے نمٹنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ اب اسے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر توانائی کے بحران کی طرف توجہ دیکر بھاری بلوں والی کھلی دہشت گردی ختم کرنی چاہیے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب:

” تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے”
دعا ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کی مفلس و بےحال عوام پر رحم و کرم کرے اور ملک پاکستان کو نا اہل حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کرے۔۔آمین ثم آمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.