مخصوص نشستوں کا کیس: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرالیتے تو سارے مسائل حل ہوجاتے: چیف جسٹس

31
سپریم کورٹ
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےفل کورٹ بینچ نےسنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کردیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جاسکتا ہے۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنےکا کہا گیا تھا، اس پر عدالت نے کہا پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجا نےاسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی اور بطورجماعت (پی ٹی آئی نے) حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحادکونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مستردکرتے ہوئےکہا سنی اتحاد کونسل نےانتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

فیصل صدیقی نے کہا اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ تنازع کی بات کیوں کررہے ہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی اور تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا، آخری جگہ پارٹی لکھا،کوئی خاص فرق ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹیکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہوسکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے سوال کیا آپ 8 فروری سے پہلےکیا تھے؟ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جو امیدوار ہمارےسامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کررہے ہیں وہ تو سب تحریک انصاف کے ہیں، تحریک انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آرہے، تحریک انصاف کے امیدوارتوپھرآزاد نہ ہوئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑسکتے تھے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کوکس بنیاد پرانتخابی نشان دیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان دیا اور بطور آزاد امیدوار شناخت دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہےجنہیں ماننےکے سب پابند ہوتےہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طورپرپارٹی سربراہ کی بات ماننےکی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کاذکر ابھی غیرمتعلقہ ہے،مناسب ہوگا ابھی سیاسی جماعت اورکیس پرفوکس کریں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کاغذات نامزدگی میں کوئی خودکوپارٹی امیدوارظاہرکرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوارتصورہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔

جسٹس منیب نے کہا سنی اتحادکونسل میں شامل ہونے والوں نےخودکوکاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا اور کاغذات بطور تحریک انصاف امیدوار منظور ہوئے اور امیدوار منتخب ہوگئے تو الیکشن کمیشن کےقوانین کیسےتحریک انصاف کےامیدواروں کو آزاد قراردے سکتےہیں؟ انتخابی نشان ایک ہویا نہ ہو الگ بحث ہےلیکن امیدوارپارٹی کےہی تصورہوں گے۔

جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اس حساب سےتو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کےکامیاب امیدوارشامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا۔

جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے سوال کیا کہ تحریک انصاف یا آزاد امیدواروں نے بیٹ کا نشان لینے کی درخواست دی؟ چیلنج کیوں نہیں کیا اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا؟ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا سب آزاد امیدوار تو بیٹ نہیں مانگ سکتے تھے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا سلمان اکرم راجا نے خودکو تحریک انصاف امیدوار قرار دینےکےلیے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجا کی درخواست مسترد کردی تھی۔

جسٹس حسن اظہررضوی نے استفسار کیا بلےبازبھی کسی سیاسی جماعت کانشان تھاجوتحریک انصاف لیناچاہتی تھی اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا بلےبازوالی جماعت کےساتھ الحاق ختم کردیاتھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی انتخابات کرالیتے سارے مسائل حل ہوجاتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اصل اسٹیک ہولڈ رووٹر ہے جو ہمارےسامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ہم بنیادی حقوق کےمحافظ ہیں،ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنےکا کہہ رہی تھی اور ایساپہلی بارنہیں ہوا۔

تبصرے بند ہیں.