پیاس سےبلکتا “چولستان “
تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان
پانی زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے یہ ان لوگوں سے پوچھیے جو کئی کئی دن بغیر پانی یا تھوڑے پانی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں ۔کیونکہ انہیں اس مقدار میں صاف تو کیا آلودہ پانی بھی نصیب نہیں ہوتا ۔جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔انسان بغیر نہاے دھوے تو رہ سکتا ہے لیکن پانی پئے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔یوں تو پوری دنیا ہی پانی کی قلت کا شکار ہے مگر پاکستان کے صحرا تو اس سے خصوصی طور پر متاثر ہو رہے ہیں ۔جہاں لوگ گندے سے گندہ پانی بھی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب ،جانور ہوں یا چرند پرند ہر ایک پانی کی لائن میں کھڑا نظر آتا ہے ۔چولستان یا روہی کا علاقہ ان شدید گرمیوں میں شدید آبی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسی ہی خشک سالی سے اس سے قبل بھی بھوک اور پیاس کئی انسانی المیے جنم لے چکے ہیں ۔ موسمی حالات اور پانی کی شدید قلت یہاں کے لوگوں کو نقل مکانی پر بھی مجبور کر دیتی ہے ۔ موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متوقع شدید موسمی حالات کی صورت میں ان لوگوں کے لیے مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ہیٹ ویویز اور ماحولیاتی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہا ہے کہ پانی کی قلت سے دوچار ہو نا پڑے گا ۔
میرا تعلق ڈیرہ نواب صاحب سے ہے جو چولستان یا روہی کا گیٹ وے کہلاتا ہے پچھلے پچاس سال سے جب بھی گرمی آتی ہے اسکے اثرات اور حدت سب سے پہلے یہاں محسوس کی جاتی ہے لوگوں کی نقل مکانی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ چولستان میں پانی کے ذخا ئر اب ختم ہو چلے ہیں ۔ لوگ اپنے اونٹوں ،بھیڑ بکریوں اور گاےُ کے ریوڑ لیکر یہاں اور اس کے گردو نواح میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں ۔ میں بہت عرصہ سے چولستان کے صحرا میں پانی کی عدم دستیابی سے سینکڑوں انسانوں اور انکے مال مویشی کو موت کے منہ میں جاتا دیکھتا چلا آیا ہوں۔ چولستان میں بارش نہ ہونے اور گرمی کی شدت میں اضافہ سے یہ کیفیت ہر سال ہی یہ ظلم ڈھاتی ہے مگر اس سال ابھی تو گرمی کا آغاز ہے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہاں کا درجہ حرارت ۵۰ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے طویل عرصہ سے بارش نہ ہونے سے چولستان اور روہی کے ٹوبے خشک ہو چکے ہیں جنگلی حیات بھی شدید خطرے سے دوچار ہے گھانس پھونس کا نام ونشان مٹتا جا رہا ہے ۔چند روز قبل سوشل میڈیا پر گرمی اور پیاس سے مرنے والی بھیڑوں اور بکریوں کی سوشل میڈیا پر تصاویر نے دلوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے جو پانی اور چارہ نہ ملنے سے ہلاک ہو چکی ہیں ۔قیامت خیز گرمی اور پانی کی عدم دستیابی سے قدرتی چرا گاہیں ویران ہو رہی ہیں دور دور تک ہریالی نظر نہیں آتی جنگلی جھاڑ یاں تک سوکھ چکی ہیں جانور پیاس اور بھوک سے مر رہے ہیں انسان گرمی اور پیاس سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔چولستان سے جان اور مال بچانے کے لیے نقل مکانی بڑی تیزی سے جاری ہے ۔چولستان سے پانی ،پانی کی صدائیں آرہی ہیں روہی کی پیاس بڑھ رہی ہے ۔انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور وں کی زندگی بھی داوُ پر لگ چکی ہے صحرائی ٹوبوں میں بچا کچھا پانی نہایت آلودہ اور مضر صحت ہوچکا ہے مگر لوگ استعمال پر مجبور ہیں ۔اس صحرا میں بسنے والے دو لاکھ انسان اور سولہ لاکھ جانور پانی کے حصول کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ابر رحمت کے منتظر ان لوگوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔بے بہا وسائل سے مالا مال صحرا چولستان آج مدد کا منتظر ہے ۔چولستان میں پانی کا ذخیرہ کرنے والے ٹوبے جن کی تعداد گیارہ سو کے قریب ہے مگر ان کی صفائی کا خاطر خواہ بندوبست نہ ہونے سے مناسب اور معقول ذخیرہ کرنے سے قاصر ہیں اب تو سوکھ چکے ہیں ۔ چولستان کے بہت سے علاقوں میں صاف پانی کی پائپ لائنیں بچھا دی گئی تھیں جو کسی حد تک کام کرتی ہیں مگر زیادہ تر خراب رہتی ہیں اور پانی نہیں پہنچ پاتا ۔جانوروں کے لیے سایہ دار شیڈ بناے گئے ہیں لیکن وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔دریاوں میں پانی خشک ہونے کی وجہ سے جو چند ناکافی نہریں یہاں تک آتی ہیں وہ بھی ٹیل تک نہیں پہنچ پاتیں ۔سوال یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دن بدن گرمی بڑھنے کے خطرے کے پیش نظر اس صورتحال کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ؟ سب سے پہلے تو حالات کی سنگینی کااحساس بے حد ضروری ہے تاکہ کسی تلخ صورتحال سے بچا جا سکے اور اس شدید خشک سالی سے کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے سکے ۔دور رس اقدامات کا وقت اب نہیں ہے فوری ریلیف اور امدادی اقدامات کا وقت ہے جلد از جلد حکومت انسانی حیات اور جانداروں کو پانی فراہم کرے اور ان پیاسے بلکتے بچوں عورتوں ،مردوں اور بزرگوں کو بچایا جاسکے اور تڑپپتے ہوے جانور ں اور پرندوں کی پیاس بجھ سکے ۔ان چولستانی بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔گو اس مرتبہ ریسکیو ۱۱۲۲ بھی خاصی متحرک نظر آتی ہے لیکن اتنے بڑے صحرا کی پیاس بجھانا دشوار مرحلہ ہوتا ہے ۔مقامی این جی اوز کو بھی ان کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
سب سے پہلے اللہ کے حضور سربسجدہ ہوکرباران رحمت کی دعا کریں بے شک وہی ذات اس مشکل گھڑی میں ہماری مدد گار ہوسکتی ہے ۔اللہ کی خصوصی رحمت اور بارش کے لیے دعاوں اور نماز کا اہتمام کیا جاے ۔ ۔ارباب اختیار فوری طور پر کراچی کی طرز پرپانی کے ٹینکرز مطلوبہ مقامات تک پہنچانے کا انتظام کریں ۔حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کو بھی اس کار خیر میں حصہ لینا چاہیے ۔ سیاسی ،سماجی اور مذہبی جاعتوں کو اس سلسلہ میں فوری توجہ دینی چاہیے ۔ جو پانی کی پائپ لائن قابل مرمت ہیں انہیں فوری مرمت کیا جاے اور پانی کی ترسیل میں اضافہ کیا جاے ُ ۔نہروں کو ہنگامی بنیاد پر پانی کی مکمل فراہمی کا بندوبست کیا جاے بندش ختم کی جاے تاکہ پانی ٹیل تک پہنچ سکے محکمہ صحت کے خصوصی کیمپ قائم کیے جائیں ۔ لائیو سٹاک اور وائلڈ لا ئف کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ پالتو اور جنگلی جانوروں کی زندگی بچائی جاسکے ۔میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہوے ایسی مقامات کی نشاندہی کرے جہاں فوری مدد درکار ہے ۔ جن لوگوں کے جانور اس خشک سالی کی نظر ہو چکے ہیں انہیں حکومت فوری مالی امداد دے ۔تا کہ ان کے ہلاک شدہ جانوروں کے نقصان کاکسی حد تک ازلہ ممکن ہو سکے ۔