نابغہ ء روزگار عسکری شخصیت

31

تحریر: منشا قاضی

عصر حاضر میں اگر سیرت و اخلاق اسلامی نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ۔ جہاں تلک شرافت و اخلاق عصمت نظر اور سعادت انسانیت کا تعلق ہے ایک نوع کا قحط الرجال ہے جس کا احساس دل کا خلجان اور روح کا خلفشار بن کر رہ گیا ہے ۔اگر آج اس گئے گزرے دور میں کوئی ایسی شخصیت ہے کہ جس کی آنکھ میں حیا کی معصومیت دل میں ایمان کی حلاوت اور افکار و اعمال میں خدا کے خوف و خشیت کی جھلک نظر اتی ہے ۔ تو میں اس نعمت کے لیے جہاں بارگاہ خداوندی میں سجدہ ء ریز تشکر ہوں ۔ وہاں اپنے پاکستان کے محسن اس عبقری شخصیت پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے لیے دل کی گہرائیوں سے دست بہ دعا ہوں اللہ تعالی ان سے وہ کام لے رہے ہیں جس کی آرزو بڑے بڑے علم و فضل کے کوہ گراں کی پوری نہ ہو سکی ارباب فکر کی موجودگی میں ایک عسکری شخصیت عبقری شخصیت بن گئے ایسے ارباب نظر جو بقول شاعر مشرق حادثات کو بطون روزگار میں دیکھ سکتے ہوں اور جو خشک شاخوں میں بتے اور کلیاں نمودار ہونے سے پہلے پھولوں کا رنگ دیکھ سکتے اور ان کی بو سونگھ سکتے ہوں میں دو صدیوں سے ایسے ہی نابغہ ء روزگار نابغہ ء عصر عبقری شخصیت کو چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈ رہا تھا آج میں اللہ کے حضور سجدہ ریز تشکر ہوں کہ وہ ہستی مجھے مل گئی ہے ۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے نام سے پہلے عسکری حوالے سے برگیڈیر بھی آتا ہے اس وقت وہ کسی محاذ جنگ پر نہیں جا رہے اس وقت وہ ایک استاد کی حیثیت سے آنے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو اقبال کے افکار و نظریات کی روشنی میں آبیاری کر رہے ہیں اور ان کو سر سبز و شاداب کر رہے ہیں ڈاکٹر وحید الزماں طارق بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں وہ اپنی ذات میں ایک پوری یونیورسٹی پورا ادارہ ایک انجمن اور ایک تحریک ہیں اور آپ کو پورا پاکستان دیکھ رہا ہے ایران اور ترکی مان بھی رہا ہے اور جان چکا ہے فارسی زبان کے صاحب دیوان شاعر اور عربی انگریزی اردو اور پنجابی زبانوں پر یکساں عبور حاصل ہے عربی بولتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی عرب حجاز سے رخت سفر باندھ کر لاہور آ نکلا ہو فارسی میں سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی کے حسین امتزاج سے ماحول میں چاندنی بکھیر دیتے ہیں اور آپ کے دل میں اہل پاکستان اور فارسی زبان کی خدمت کا سچا جذبہ اور مستقل ولولہ تازہ جاری و ساری ہے اور آپ نے اپنے کتنے ہی شاگردوں میں تحقیق کا شوق اور تخلیق کا ذوق پیدا کر دیا ہے۔ جن میں ہمارے ملک کے نامور گفتگو طراز جناب راؤ محمد اسلم جو وحید الزماں طارق یونیورسٹی کے تلمیذ خاص ہیں اور پورے پاکستان میں آپ کی نیک نامی کے جلتے پھرتے سفیر ہیں میں نے ان سے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بہت ساری معلومات جمع کی ہیں اور ایک پوری کتاب آپ پر بہت جلد منظر عام پر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے ماہرین اقبالیات آپ کی علمی وجاہت کے سحر سے خیرہ چشمی کا شکار ہو گئے ہیں ۔ آپ نے اقبال کو اتنے غور و خوض سے پڑھا ہے کہ مغرب کی دانش پہ ہلہ بول دیا ہے ۔ گزشتہ روز اپ نے اپنی تو بات کو گولڈ میڈل ملنے کی سروسز کلب میں چائے پر بلایا ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے انہیں اس صدی کا اقبالیات کے حوالے سے تحقیق و جستجو کا بہت بڑا محقق پایا ۔ ۔جس طرح شاعر مشرق خداوندان مکتب کی شکایت کرتے ہیں کہ شاہین بچوں کو خاک بازی کا سبق دے رہے ہیں اور وہ اس کے رد عمل کے لیے دعا کرتے ہیں۔

دلوں کو مرکز مہر و وفا کر

حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے

اسے بازو حیدر بھی عطا کر

پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے تو ان اشعار کو حرز جاں بنا لیا ہے اور وہ علامہ کے نور بصیرت کی چلتی پھرتی یونیورسٹی ہیں ۔

جوانوں کو میری اہ سحر دے

پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے

خدایا آرزو میری یہی ہے

میرا نور بصیرت عام کر دے

علامہ کے دل کے درد کو اگر کوئی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے تو وہ میں نے بہت قریب سے درد دل رکھنے والے ڈاکٹر وحید الزماں طارق کو دیکھا ہے ساقی نامہ تو ڈاکٹر وحید الزماں کے آئینہ ء ادراک پر رنگ و نور کی طرح رقصان ہے

اس الہامی کیفیت کو اقبال کا حافظ ہی محسوس کرے گا اور سادہ الفاظ میں بلا کے درد کو بھی محسوس کرے گا میں نے ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی زبان سے اقبال کے یہ اشعار سنے ہیں اور ہر سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا

شراب کہن پھر پلا ساقیا

وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا

میری خاک جگنو بنا کر اڑا

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

ہری شاخ ملت تیرے نم سے ہے

نفس اس بدن میں تیرے دم سے ہے

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے

دل مرتضی سوز صدیق دے

جگر سے وہی تیر پھر پار کر

تمنا کو سینوں میں بیدار کر

تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر

زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر

جوانوں کو سوز جگر بخش دے

میرا عشق میری نظر بخش دے

میری ناؤ گرداب سے پار کر

یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر

بتا مجھ کو اسرار مرگ و حیات

کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات

میرے دیدہ ترکی بے خوابیاں

میرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں

میرے نالہ ء نیم شب کا نیاز

میری خلوت و انجمن کا گداز

امنگیں میری آرزوئیں میری

امیدیں میری جستجوئیں میری

میری فطرت آئینہ روزگار

غزالان افکار کا مرغزار

میرا دل میری رزم گاہ حیات

گمانوں کے لشکر یقین کا ثبات

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

میرے قافلہ میں لٹا دے اسے

لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

سروسز کلب کی خدمات لذت کام و دہن کے حوالے سے تو ناقابل فراموش ہیں ان کے کھانوں کے ذائقوں کے سامنے دوسرا ذائقہ مغلوب ہے ۔ چائے کی مخموری اور سرشاری ابھی تک دائم و قائم ہے اس کی لذت ابھی تک محسوس کر رہا ہوں اور اس کے بعد کوئی چائے لطف نہیں دے رہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مجھے جب بھی چائے پینا ہوگی سروسز کلب میں ہی جانا پڑے گا ۔

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو میکدے سے تو حالت بدل گئی

جاری ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.