ہائے رے یہ مزدور کی مجبوری
تحریر، مہوش فضل
یکم مئی ہم جن کیلیے چھٹی مناتےہیں انہی کو اپنے کام سے چھٹی نہیں ہوتی اور اگر چھٹی ہو تو اس دن انکے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔۔ ہائے رے یہ مزدور کی مجبوری۔۔۔۔ انسان اتنا مجبور کیوں ہوتا ہے ؟پیسے کے لیے اور مزدور اتنا مجبور ہوتا ہے تو صرف روٹی کیلئے ۔۔تاکہ وہ اتنا کما لے کہ ایک وقت کا کھانا اپنے بچوں کو کھلا سکے۔۔ اس میں بھی کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں کہنے کو لیبر ڈے ہے لیکن لیبر کو سکون تو اس دن بھی نہیں ہے کیونکہ بچوں کے کھانے لے لیے اسے ہر حال میں مزدوری کرنی ہی پڑ تی ۔۔ پاکستان میں مشقت کا شکار 23 لاکھ افراد کی بڑی تعداد اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتی ہے حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے لیے 1,000 اینٹیں بنانے کی کم از کم اجرت 2,368 روپے مقرر کی ہے لیکن کبھی کو کبھی اپنے کام کا پورا معاوضہ نہیں ملا۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ایک دیہاڑی دارمزدور کی یومیہ اجرت تقریبًا 1200 روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈرائیور اور دیگر کام کرنے والے مزدوروں کی ماہانہ اجرت 32000 مقرر کی گئی ہے لیکن سب بے سود ہے کہنے اور کروانے میں بہت فرق ہوتا ہے حکومت نے نوٹیفیکیشن تو دے دیا کہ اتنی اجرت مقرر کی گئی ہے لیکن کسی کو بھی اس کے کام کی مکمل اجرت نہیں ملتی۔ ڈرائیور حضرات کو بھی 20۔25 ہزار میں کام پر رکھا جاتا ہے حالانکہ اس کی مقرر کردہ اجرت 32،000 روپے ہےاسی طرح ایک دیہاڑی دار مزدور کی ایک دن کی اجرت تقریباً 1200 مقرر ہے لیکن اس کو بھی 800، 1000 تک دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے وہ بےچارہ یہ سوچ کر چپ ہو جاتا کہ چلو کام تو ملا ایک دن کا کھانا تو کھا لیں گے۔۔۔
اب بات کر لیتے ہیں گھروں میں کام کرنے والوں کی تو ان کی اجرت تو انتہائی کم ہے۔۔ ہم کہیں دوسرے ملک کی مثال لیں تو ہمارا ملک بہت پیچھے ہے۔ وہاں کام کرنے والوں کی عزت ہے یہاں کسی کام کی کوئی عزت نہیں گھروں میں کام کرنے والوں کو نہ تو پوری اجرت دی جاتی نہ ہی عزت۔ اس کے علاوہ کا م کے لیے چھوٹے بچے ، بچیاں رکھے جاتے اور آئے دن سننے کو آتا ہے کام کرنے والا بچہ گھریلو تشدد کاشکار ہو کر اسپتال منتقل۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نوبت آتی ہی کیوں ہے ماں باپ تو کام کریں لیکن وہ اپنے بچوں کو کیوں کام پر چھوڑ کر بھول جاتے ہیں وہ بچے پیدا ہی کیوں کرتے ہیں اگر پال نہیں سکتے۔۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟
ایک نظر دیہاڑی دار مزدور پر بھی ڈال لیتے ہیں، گھر بنانا ہو مزدور کی ضرورت پڑتی، رنگ کروانا ہو مزدور چاہیے، کوئی نل خراب ہو تو بھی مزدور ہی کام آتا ہے لیکن اس مزدور کی مزدوری دیتے ہوئے اتنی بحث کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ مجبور ہے اور پاپی پیٹ کی خاطر کم اجرت میں بھی مان جائے گا ایک صاحب حیثیت انسان لاکھوں کروڑوں کا گھر تو بنوا سکتا ہے، نت نئے شو پیسز خرید کر گھر کی زینت بڑھا سکتا ہے لیکن مزدوری دیتے ہوئے سوچ بچار کرے گا کہ فلاں بندے سے کروایا اس نے تو اتنا لیا اب اتنا کیوں دیں ‘مرتا کیا نہ کرتا’ بس روٹی کی خاطر کم اجرت میں کام کے لیے مان جاتے ہیں حکومت کیوں ایکشن نہیں لیتی کیوں خاموش ہے اس اقدام پر کیوں کوئی آواز بلند نہیں کرتا کیوں کسی کا ضمیر اسے نہیں جھنجوڑتا ایک غلطی مزدور خود کرتا ہے اپنے لیے آواز نہ اٹھا کر اور ایک غلطی ہم کرتے ہیں اس کے حق میں نہ بول کر۔ اکثر آتے جاتے روڑ کے کنارے ، فٹ پاتھ پر، پل کے نیچے مزدور کثرت سے نظر آتے ہیں سارا دن وہاں بیٹھے کام کا انتظار کرتے ہیں کہ شاید کوئی آئے اور کام کے لیے لے جائے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے انہیں ہفتوں کام نہیں ملتا ۔
ایسے ہی ایک دفعہ شاید پچھلی عید کی بات ہے ، چاند رات کو میں گھر سے کسی کام سے نکلی تو ایک آدمی روڑ سائڈ بیٹھا تھا، پاس کچھ مزدوری کا سامان پڑا تھا وہ سر پہ ہاتھ رکھے پریشان بیٹھا تھا۔ کوئی گھنٹے بعد واپسی ہوئی آدمی ادھر ہی بیٹھا ہوا تھا لیکن اب اس آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ مجھے دیکھ کر بہت عجیب لگا اتنا بڑا آدمی ہو کر رو رہا ہے۔ جب اس آدمی سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہےتو آدمی نے روتے ہوئے ہچکیوں میں بتایا کہ کئی دن ہو گئے مجھے کام نہیں ملا ۔ پہلے تو کچھ نہ کچھ گزارا ہو گیا لیکن اب 2 دن ہو گئے میرے بچے بھوکے ہیں میں اس لیے گھر نہیں جا رہا کہ کیا منہ لے کر جاؤں نہ کام ملا نہ کھاناہے۔
آجکل مزدوروں کو کام نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیدار بھی ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے بندے رکھے ہوئے ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے اجر ت دے کر کام کرواتے ہیں اور اس طرح باہر جو مزدور کام کی تلاش میں نکلتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں یا انکو اپنے کام کے مطابق اسکی اجرت نہیں ملتی یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے آرام کی خاطر اس طبقے کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔۔ کبھی کسی مزدور کے بچے کو جوتے اور کپڑوں کے لیے ترستے دیکھا ہے آپ نے ؟ ان کی نظروں میں وہ سوال دیکھے ہیں جو کسی صاحب حیثیت کے بچے کو دیکھ کر ان کی نظروں میں ابھرتے سوال دیکھے ہیں ان کی آس میں ڈوبی آنکھیں دیکھی ہیں؟ اگر نہیں دیکھی تو ایک بار دیکھنا کہ ایک مزدور کس طرح اپنے آپ کو مار کر ہمارے گھروں میں روشنی کرتے ہیں ۔
کبھی ہوٹلز میں کام کرتے ہوئے ورکرز کو دیکھا ہے آپ نے ؟ جب ہر کوئی اپنی چھٹیاں انجوائے کر رہا ہوتا ہے وہیں وہ ہمارے آرام کیلیے کام میں مصروف ہوتے ہیں۔