….شہزاد احمد۔۔۔۔چند یادیں
تحریر: محمد نوید مرزا
شہزاد احمد اردو کے بے مثال شاعر،مترجم ،دانشور اور گفتگو کے ھنر سے شناسا ایک ایسی شخصیت کا نام ھے،جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔شہزاد احمد سے میری پہلی ملاقات 1990 ء میں صابر جالندھری مرحوم کے جواں مرگ شاگرد شاعر عارف جلیل کی برسی کے موقع پر ھونے والے مشاعرے میں ھوئی۔جہاں میں نے اپنی ابتدائی طور پر لکھی گئی غزل پڑھی۔۔۔۔
ایک لہجے میں بولتے ھیں سبھی
کون جھوٹا ھے کون سچا ھے
کل ستاروں کا بہہ رھا تھا لہو
آج سورج بھی سرخ نکلا ھے
آسماں پر نہ کیوں ھو اس کا دماغ
اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ھے
مشاعرے کے بعد شہزاد صاحب مجھ سے ملے اور الگ سے داد دی۔میں اتنے بڑے شاعر کے ظرف پر حیران بھی ھوا اور خوشی بھی ھوئی۔اس وقت میری عمر 22 برس تھی۔والد محترم،شاعر درویش،مصوراحساس جناب بشیر رحمانی بھی وھاں موجود تھے۔میں ان کے ساتھ ھی اپنی زندگی کے دوسرے یا تیسرے مشاعرے میں شریک بھی ھوا۔یوں شہزاد صاحب سے ایک ادب و احترام کا رشتہ قائم ھوا۔بعد ازاں یہ غزل ،ٹھنڈا سورج میں شامل ھوئی۔شہزاد احمد جی نے میرے دوسرے مجموعے،چہروں سے بھری آنکھیں کا دیباچہ لکھا کتاب کا یہ منفرد نام ھمارے منفرد لہجے کے شاعر جناب اظہار شاھین کے ذریعے مجھ تک پہنچا تھا۔استاد صاحب علامہ ذوقی مظفر نگری کا ذکر بھی ھواا۔یوں شہزاد صاحب سے ایک ادب و احترام کا رشتہ قائم ھوا۔بعد ازاں یہ غزل ،ٹھنڈا سورج میں شامل ھوئی۔شہزاد احمد صاحب نے میرے دوسرے مجموعے،چہروں سے بھری آنکھیں کا دیباچہ لکھا کتاب کا یہ منفرد نام ھمارے مختلف اور جدید لہجے کے شاعر جناب اظہار شاھین نے عطا کیا تھا۔ان کا شعر تھا
اتنا تجھ کو ڈھونڈا ھے
آنکھیں بھر گئیں چہروں سے
اظہار شاھین صاحب سے دوستی کی ایک الگ داستان ھے۔اس کے بعد ایک طویل عرصہ لاھور کینٹ کے مشاعروں میں جانا ھوتا رھا۔شہزاد صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مشاعرے کے لئے شعراء کو خود مدعو کرتے تھے۔موبائل تو نہیں تھا ۔لیکن وہ ٹیلی فون کرتے یا رابطے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرتے،لیکن ان کے لاھور کینٹ کے مشاعروں میں نوجوان اور سینئر شاعروں سمیت ایک بہت بڑی تعداد موجود ھوتی تھی۔ان مشاعروں کی کامیابی میں ھمارے والد محترم کے دوست اور نامور شاعر جناب علامہ بشیر رزمی اور جناب احسان اللہ ثاقب بھی پیش پیش ھوتے۔مجھ سمیت بہت سے شعراء کو تربیت لاھور کینٹ اور مغل پورہ کے مشاعروں میں ھوئی۔مغل پورہ میں جناب عبد الحکیم وفا اور جناب اختر رومانی کی محبتوں اور کاوشوں سے یادگار مشاعرے ھوتے رھے۔یہ دونوں مشاعرے اب بھی جاری ھیں۔لیکن شہر سے دور آباد ھونے کی وجہ وھاں جانا کم ھوتا ھے۔
شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ھوئے۔شہزاد صاحب کی زندگی کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ ایک ان تھک اور باھمت شخصیت کا نام ھیں۔برسوں پہلے جب انھیں دل کا فوری پڑا اور ڈاکٹروں نے انھیں مصنوعی تنفس دے کر زندگی کی طرف لوٹایا تو وہ اس ٹوٹے ھوئے پل کو زندگی سے جوڑنے میں کامیاب ھوئے۔انھوں نے خود کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنایا اور اس حادثے کے بعد طویل عرصہ تک زندہ رھے،انھوں نے یکم اگست 2012 ء کو 80 برس کی عمر میں وفات پائی۔ان کی نماز جنازہ میں مجھ سمیت شہر ادب کی بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔
شہزاد احمد ایک شاعر کے طور پر تو اپنی شناخت رکھتے ھی تھے،لیکن انھوں نے پی ٹی وی کے ابتدائی دور میں سکرپٹ بھی لکھے۔کچھ ٹی وی ڈرامے اور فلموں کی کہانیاں اور شاید نغمے بھی لکھے۔وہ ایک اعلی پائے کے مترجم بھی تھے۔نفسیات سے گہرا لگاؤ تھے۔فرائیڈ کی نفسیات پر اعلی پائے کا کام کیا۔تمام عمر شعر وادب کا اپنا بچھونا بنائے رکھا۔شاعری میں نفسیات ،فلسفہ اور سائنس کے دیگر علوم کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا۔ان کی شاعری مختلف،منفرد اور موضوعات کی رنگا رنگی سے آراستہ تھی ،چند شعر دیکھیں
میں ایسی پستیوں میں گھر گیا ھوں
کہ سورج بھی دیا لگنے لگا ھے
ذھن کے تاریک گوشوں سے اٹھی تھی اک صدا
میں نے پوچھا کون ھے اس نے کہا کوئی نہیں
رخصت ھوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ھے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ھے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ھے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ھاتھ ھلاتا کیا ھے
آج پھر پہلی ملاقات سے آغاز کروں
آج پھر دور سے ھی دیکھ کے آؤں اس کو
چھوڑنے میں نہیں جاتا سے دروازے تک
لوٹ آتا ھوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
ھزار چہرے ھیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا