عید آرہی ہے
تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی
محترم قارئین رمضان کا آخری عشرہ جارہا ہے۔ یہ عشرہ زیادہ تر عید کی تیاریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان کے اس عشرے کی روح بھی متاثر نہ ہو اور اس عبادت کے بدلے اللہ کی طرف سے دی گئی عید کی خوشی کا سامان بھی پیدا کیا جائے جس میں سب کے ساتھ مل کر عید منائی جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ عید کیا ہے؟ کیا اس کا تعلق نئے کپڑے خریدنے، لذیذ پکوان تیار کرنے اور بڑے بڑے قہقہے لگانے سے ہے؟ میرے خیال میں تو عید انسان کے اندر کہیں ہوتی ہے۔ اندرخوش ہو تو اسے سارا جہاں رقص کرتا دکھائی دیتا ہے اور اگر وہ افسردہ ہو تو اسے کوئی ماحول مزہ نہیں دیتا۔
ابھی میں کل ہی اخبار پڑھ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے پاکستان میں کثیر آبادی حقیقی خوشیوں والے ماحول سے کوسوں دور ہے۔ اک خبر تھی کہ پاکستان میں گیارہ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اک خبر تھی کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا پے۔ اک جگہ بشام میں خود کش دھماکے کی ہلاکتوں اور نقصانات کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔ کہیں کسی قصبے میں پانی کے صاف پانی کے قحط کا زکر تھا اور کہیں عدالتوں میں انصاف نہ ملنے کی خبریں درج تھیں۔ المختصر اخبار میں زیادہ تر خبریں ملک میں بدتر حالات اور غریب عوام کی محرومیوں کا نقشہ دکھا رہی تھیں۔
یقین کریں کہ ساری خبروں کو صرف سرسری سا دیکھ کر بھی دل کچھ بوجھل سا ہوگیا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ اس ملک کی کثیر تعداد جو کہ غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے وہ رمضان کس طرح گزارتی ہوگی اور ان کی عید کیسی ہوتی ہوگی۔ اس سارے منظر کو سوچیے تو یہی محسوس ہوگا کہ ہم اک مصنوعی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اخلاقیات اور احساسات صرف کتابوں اور فلموں ڈراموں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زمینی حقائق تو یکسر الٹا منظر پیش کرتے ہیں۔ غریب کی غربت اور متوسط کی حسرت اسے چھوٹی سی خوشیاں بھی منانے سے دور رکھتی ہے اور اشرافیہ ایوانوں میں بیٹھی صرف اپنے تحفظ و عیاشی کی راہ ہموار کرنے والے قوانین بناتی ہے۔
آپ سب سے معذرت چاہوں گا کہ عید آنے والی ہے مگر میں کیسی باتیں لے بیٹھا۔ اب تو بازاروں میں رنگ برنگی ہوگی، ٹی وی پر خوبصورت پروگرام نشر ہونگے اور لوگ اک دوسرے کو دل میں کدورتیں رکھے مصنوعی انداز میں گلے لگائیں گے. ایسے میں میری طرف سے یہ کیسے نقشے دکھائے جانے لگے۔ کیا کروں کہ میرے پاس کسی کے حالات سنوارنے والے وسائل نہیں مگر احساس کی بیماری اتنی زیادہ ہے کہ دیکھتا جاتا ہوں اور بوجھل ہوتا جاتا ہوں۔ کچھ کر بھی نہیں سکتا اور پتھر بھی نہیں ہو پاتا۔ پیارے قارئین خوشی کسی ایک اکیلی چیز کا نام نہیں کہ جسے حاصل کر لیا جائے اور بات ختم۔ کوئی شخص کبھی تنہا خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ تو اک مربوط احساس ہے، یہ تو اک فضا ہے جو دوسروں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ محض نئے کپڑے جوتے پہن کر کوئی مسرتیں حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی بچہ جیب میں صرف عیدی ڈال کر عید محسوس کرسکتا ہے۔ عید تو تب محسوس ہوتی ہے جب سب اک دوسرے کے ساتھ خلوص دل سے ملیں اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ کھیلنے والے بچے میسر ہوں۔
زرا سوچیے کہ اسلام میں ہمسائے کا کتنا حق بیان کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ النساء میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین ہے۔ اسی طرح نبی پاک کا بھی فرمان ہے کہ:
” بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو”.
یاد رکھیے کہ جس طرح گھر کے ساتھ جڑا گھر پڑوسی کہلاتا ہے بالکل اسی طرح گلی سے گلی، محلے سے محلہ، شہر سے شہر اور ملک بھی اک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو ایک گلوبل ویلج کہا جاتا ہے۔ اب اس تناظر میں دیکھیں تو نبی پاکؐ کا یہ فرمان کہ “جہاں جہاں تک سایہ جاتا ہے اس تک تمھارا حق ہے اور تم حق ادا کیے بغیر نہیں بھاگ سکتے” یعنی آس پڑوس کے غریبوں، یتیموں،مسکینوں، معذوروں اور بیواؤں کا خیال تم پر لازم ہے۔ یہ بات احساس والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح رمضان کا مقصد دوسروں کی بھوک پیاس کو بھی محسوس کرنا ہے بالکل اسی طرح عید کا مطلب بھی دوسروں کی خوشیوں میں خوشی تلاش کرنا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد اداس فضا ہے تو آپ کس طرح خوش رہ سکتے ہیں۔ اتنے بےحس تو چرند، پرند اور درند بھی نہیں ہوتے۔
آئیے رمضان کے آخری عشرے سے جڑی عید کو درست ترین انداز سے منانے کی کوشش کریں۔ اگر اصل خوشی مطلوب ہے تو اپنے رشتہ داروں، پڑوس، گلی، محلے اور جہاں تک ممکن ہو کسی محروم، کسی محتاج، کسی لاچار، کسی بیمار کو تلاش کریں اور اس کی کی خوشی کا اہتمام کریں۔ اگر اس کی مالی مدد کرنا ممکن نہیں تو اس کا کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے، حسن اخلاق سے اور اس کو اہمیت دے کر اس کے دل پر مرہم لگانے کی کوشش کریں۔ کسی مایوس کو امید کی روشنی دے دیں، کسی لاچار کی لاٹھی بن جائیں، کسی تنہا کو گفتگو دے دیں، کسی یتیم کو کاندھا دے دیں۔۔۔یقین کریں کہ یہ انمول خوشیاں بکھیرنا ہی عید ہے۔ یہ دعائیں سمیٹنا ہی عید ہے، یہ فضا و ماحول پیدا کرنا ہی عید ہے۔ پھر چاہے نئے کپڑے اور قیمتی جوتے نہ بھی پہنے ہوں تب بھی آپ کے گرد اک ایسا قیمتی اور بابرکت ہالہ بن جاتا ہے کہ سب کو آپ ہی خوبصورت نظر آنے لگتے ہیں۔ یقین کریں یہی عید ہے۔۔یہی عید ہے۔بقول شاعر:
کسی دردمند کے کام آ ، کسی ڈوبتے کو اچھال دے
یہ نگاہِ مست کی مستیاں، کسی بد نصیب پہ ڈال دے