حسین مجھ سے اور میں حسین سے۔۔۔

جمع تفریق۔۔۔ناصر نقوی

3

اسلامی سال محرم الحرام کا چاند نظر آ تےہی مسلم دنیا کی فضا سوگوار ہو جاتی ھے کیونکہ ہر،، کلمہ گو،، کے دل و ذہن میں عاشور 10۔ محرم الحرام کی سہ پہر گردش کرنے لگتی ہے، جب دو ش رسول کے سوار، آ قائے دو جہاں کے لاڈلے، شیر خدا کے بیٹے، جگر گوشے بتول اور بنائے لا الہ کی بنیاد امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقا ہی نہیں، اہل بیت رسول پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے کہ رہتی دنیا تک ہر آ نکھ نم ہوتی رہے گی، کیونکہ ان آ نسوؤں کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا، پھر بھی چند سازشی اور فسادی امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے کے لیے کوئی متنازعہ سوال کھڑا کر دیتے ہیں ،کچھ کا خیال ہے کہ یہ دو شہزادوں کی لڑائی تھی، کچھ کہتے ہیں اگر بادشاہ وقت نے بیعت طلب کی اور لوگوں نے بڑی تعداد میں اس پر عمل در آ مد بھی کیا تو جنگ اور کنبے کو بچانے کے لیے نعوذ باللہ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی مصلحت پسندی میں بیعت کر لیتے لیکن مسئلہ یہ تھا ہی نہیں، آ ل رسول حق کی بلندی، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے خلاف ،،امر بالمعروف ونہی المنکر،، کا علم سچائی اور اللہ کے پسندیدہ دین حق کے لیے اٹھایا تھا، کچھ کا کہنا ہے کہ اگر یزید شرابی، کبابی، خود سر اور دینی معاملات میں مداخلت نہ کرتا تو حضرت امام حسین علیہ السلام ضرور بیعت کر لیتے، حقائق ان تمام باتوں سے مختلف ہیں ان حقائق کے حوالے سے یزید اور اس کے پیاروں کے پاس دلائل نہیں تھے نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام صرف قر آ ن و سنت کے پابند تھے اور دین مبین کی عظمت و رفعت کے لیے عمل پیرا، لیکن جہاں دلائل کا جواب نہ ہو وہاں ہمیشہ دنگا فساد ہوتا ہے مولانا مودودی نے اپنی کتاب ،،خلافت اور ملوکیت،، میں دو شہزادوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو اہم ثبوتوں سے پیش کی ہے یہی نہیں، ان کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ ،،سوال یہ نہیں کہ جب سب نے بیعت کر لی یزید کی تو پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیوں نہیں کی؟ سوال یہ ہے کہ جب نواسہ رسول آ غوش رسول میں پلنے اور تربیت پانے والے،، نوجوانان جنت،، کے سردار امام حسین نے بیعت نہیں کی تو پھر سب نے کیوں کی؟ یقینا حضرت مودودی یہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ کیا امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء جوانوں، بوڑھوں اور بچوں کو بے جرم و خطا بھوکا پیاسا قتل کرنے والوں نے آ قائے دو جہاں حضور اکرم کی یہ حدیث نہیں سنی تھی کہ ،،حسین منی وانا من الحسین،،، میرا پیارا چہیتا نواسہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اگر اس حدیث مبارکہ کا تفصیلی جائزہ سیاق و سباق اور نور مجسم رحمت اللعالمین کی حیات طیبہ سے دیکھا پرکھا جائے ، تو پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اس وقت کے عام لوگوں سے زیادہ خاص لوگوں نے کسی بات اور قول نبی کی گہرائی نہیں سمجھی بلکہ حکمرانوں، مشیروں اور ذمہ داروں نے ابہام پیدا کیا اس لیے کہ ظلم کا تخت اور اقتدار اعلی قائم رہے اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہیں؟ داماد رسول شیر خدا حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ,,انسان بہت خود غرض ہے پسند کرے تو برائی نہیں دیکھتا, نفرت کرے تو اچھائی نہیں دیکھتا,, لیکن سچ وہی جو سر چڑھ کر بولے کنبہ رسول کو امام حسین کے انکار کے ساتھ,, دشت کربلا,, میں بڑی یزیدی لشکر کشی سے ہمیشہ کے لیے مٹانے کی کوشش کی گئی, رسول زادوں ، بچوں اور خواتین کو بے پردہ بازاروں میں پھیریا گیا، کربلا سے کوفہ و شام لے جایا گیا لیکن ظلم و جبر کی علامت دین حق کا منکر،، یزید،، تھا اور ،،حسین،، ہے ، آ ج بھی حسینیت کی یہ روح سرحدوں کی محتاج نہیں، نہ ہی عرب و عجم تک محدود ہے، نہ ہی اس کا مسلک و زبان سے کوئی سروکار ہے، سینکڑوں سال بیت گئے لیکن ،،واقعہ کربلا،، روز اول کی طرح آ ج بھی زندہ ہے کیونکہ یہ داستان نہیں،، معرکہ حق و باطل،، ہے قر آ ن و حدیث سے ثابت ہے کہ حق ہمیشہ باطل پر چھا جائے گا سچوں کا ساتھ دو اور حق کے ساتھ ہو جاؤ، معروف شاعر مشیر کاظمی نے لکھا تھا۔۔۔
حسین تیرا ،حسین میرا
حسین ان کا ،حسین ان کا ،
حسین جگ کا، حسین رب کا ،حسین سب کا،
وہ مانتے ہیں، یہ جانتے ہیں، حسین سب کا ،
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سچائی دبانے سے کبھی دبتی نہیں، اسی لیے مسلم دنیا میں آ ج بھی کسی نہ کسی شکل میں ،،حسین حسین،، کی صدائیں ضرور سنی جاتی ہیں اس لیے کہ۔۔۔
حسین اگر نہ شہید ہوتا، تو گھر گھر یزید ہوتا ،
نبی کی سنت عیاں نہ ہوتی ،خدا کے گھر میں اذان نہ ہوتی ،
بشر کے سینے پر زنگ ہوتا، جہاں کا کچھ اور رنگ ہوتا ،
یزیدیت کے اصول ہوتے، نماز روزہ فضول ہوتے ،
اسی لیے امت مسلمہ،، یوم عاشور،، کو ایک نئے عزم اور تجدید کے ساتھ مناتی ہے، وہ جانتی ہے کہ حکومتیں مصلحت کا شکار ہو سکتی ہیں، حقیقت یہی ہے کہ ظلم کے مقابلے میں مصلحت پسندی خاموشی اور غیر جانبداری کا دعوی معصومیت یا انصاف ہرگز نہیں، ایسا کرنا ،،شریک جرم،، ہوتا ہے بلکہ یزیدی کہلانے کے مترادف ہے باطل کی اس تاریخی معرکہ آ رائی کے بعد ،،یزید،، گالی بن گیا اس لیے کہ اس نے دین فطرت اسلام میں خیانت کرنے کی سر تو کوشش کی اور ناکامی پر اپنی بھاری بھرکم فوج کی طاقت سے صرف 72 اللہ کے سپاہیوں سے جنگ لڑی، وہ نہیں جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے وفادار رفقاء میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے جذبے میں جوش شہادت میں کمی ہو ،حضرت امام حسین نے ایک رات پہلے اپنے رفقاء سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.