وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپوزیشن کے شورشرابے میں 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ 26-2025 پیش کردیا، دفاعی بجٹ کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے تمام ٹیکس سلیبس میں نمایاں کمی کی گئی ہے جبکہ
وفاقی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں سات فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ مسلح افواج کے افسران اور سپاہیوں کو بھی سپیشل الاؤنس دیا جائے گا جو آئندہ مالی سال کے مجوزہ دفاعی بجٹ سے پورا کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ فائلر اور نان فائلر کے فرق کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ اپنے گوشوارے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے، صرف وہی بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے۔ جن میں گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری، سیکورٹیز اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری اور بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت جیسی چیزیں شامل ہیں۔
’ان لوگوں کے لیے ضروری ہو گا کہ ایف بی آر کے پورٹل کے ذریعے اپنی مالی حیثیت اور آمدنی، تحائف، قرضے اور وراثت جیسے مالی ذرائع کے دستاویزی ثبوت ظاہر کریں۔ دیانت دار ٹیکس دہندگان کو مالیاتی لین دین کرنے کا اہل کرنے کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ بھرنے کا آپشن دیا جائے گا۔‘
محمد اورنگزیب نے مزید کہا ہے کہ ’غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف سخت سزاؤں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے۔ ان میں بینک اکاؤنٹس کا منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان کو ضبط کرنا شامل ہے۔‘
وزیرِ خزانہ کی تقریر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد اور ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کرکے ڈیڑھ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔
’اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گھروں پر قرض حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور دو ہزار سکوائر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت گھروں پر قرض حاصل کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع نظام متعارف کروائے گی۔‘
وزیرِ خزانہ کی تقریر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد اور ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کرکے ڈیڑھ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔
’اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گھروں پر قرض حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور دو ہزار سکوائر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت گھروں پر قرض حاصل کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع نظام متعارف کروائے گی۔‘
وفاقی وزیر خزانہ نے نئے مالی سال کے بجٹ میں برین ڈرین کو روکنے کے لیے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں ایک فیصد کمی کی تجویز دی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت کو علم ہے کہ ملک میں بہترین پیشہ افرادی قوت کو خطے میں سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔ جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی با صلاحیت افراد ملک سے باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔
’اس لیے اس برین ڈرین کو روکنے کے لیے ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں ایک فیصد کی کمی کی تجویز ہے۔‘
پاکستان کی قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بجٹ 26-2025 تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان کی جانب سے ناصرف شدید احتجاج کیا گیا بلکہ بجٹ دستاویز کی کاپیاں پھاڑ کر ’بجٹ نامنظور‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین لگاتار نعرے بازی کرتے رہے اور بانی تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے۔
پی ٹی آئی اراکین نے جس انداز میں بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’جعلی حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا جعلی بجٹ‘ قرار دیا اس سے لگ رہا تھا اپوزیشن پہلے ہی مکمل تیاری کے ساتھ آئی تھی بجٹ پیش ہی نہیں ہونے دینا ۔ وفاوی وزیر خزانہ محمد اورنگذیب نے سنی ان سنی کرتے ہوئے بجٹ تقریر جاری رکھی ۔ سپیکر قومی اسمبلی بھی اپوزیشن کو ڈبر حوصلے کی تلقین کرتے رہے تاہم حکومتی اور حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ۔