امن کی خواہش. . مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.

آج کا اداریہ.

9

وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مسئلہ کشمیر اور پانی کے مسئلے سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور تجارت اور انسداد دہشت گردی پر بھی اپنے ہمسائے سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر انڈیا جارحانہ رویہ برقرار رکھنا چاہتا ہے تو پھر ہم اپنے مادر وطن کا دفاع کریں گے جیسا کہ ہم نےاللہ کے فضل و کرم سے کچھ روز قبل کیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر انڈیا ہماری امن کی پیش کش قبول کیاجاتا ہے تو پھر ہم دکھائیں گے کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ہماری فواج کی بہادری اور افواج کے لیے اپنے عوام کی بے مثل حمایت کی بدولت اس بحران سے فاتحانہ طور پر باہر نکل آیا، ہم خطے میں امن چاہتے تھے، امن چاہتے ہیں اور امن کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے
وزیر اعظم ترکیہ کا دوروزہ دورہ مکمل کرکے گزشتہ روز ایران پہنچے ہیں اس دورے کا مقصد بظاہر اسلامی برادر کا پاکستان سے اس اظہار یکجہتی کا شکریہ ادا کرنا ہے جو مئی کے پہلے عشرے میں پاک بھارت کشیدگی کے موقع پر کی گئی تھی ۔
وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ ایران کو ہم اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں صرف ایک رسمی جملہ ہی نہیں بلکہ بلکہ یہ ایک تاریخی سچائی ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا موقع یا کوئی بھی مشکل گھڑی دونوں برادر ہمسایہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیا پاکستان اور ایران دونوں پڑوسی برادر ملکوں کو ہمیشہ ہی جنگی صورت حا کا سامنا رہا ہے اور دونوں نے کسی بھی موقع پر متاثرہ ملک کو تنہا نہیں ہونے دیا حالیہ ایرانی سپورٹ نے بھی دونوں ممالک کے رشتوں کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کردیا ہے۔ دنیا کے شاید ہی کسی پڑوسی ممالک کے رشتوں کی نوعیت اس طرح کی ہو۔

دونوں ممالک کو اگر جڑواں کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ دونوں کی تاریخ اور ثقافت کی جڑیں انتہائی گہری اور مضبوط ہیں۔ ایران دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے تسلیم کیا تھا۔ ایران اور پاکستان نے آڑے وقت پر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا ہے۔
1965 کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے دوستی کا جو حق ادا کیا تھا، اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں
دونوں ممالک کے درمیان آر سی ڈی کے ذریعے باہمی تعاون بڑھانے میں بھی بڑی مدد ملی۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ایران کی زبان فارسی کی مرہون منت ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ پاک ایران تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اس کے سوا بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ دونوں ممالک کے تعلق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے پاکستان کی مشکل گھڑی میں ترکیے ، آذر بائجان اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح ایران نے بھی کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا-
قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو سفارتی سطح پر آزاد تسلیم کیا تھا۔1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی اہم شخصیت راجہ غضنفر علی کو ایران کا سفیر مقرر کیاایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے 1950 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا1950 میں ہی پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی کا معاہدہ طے پایا۔
پاکستان کے صدر اور گورنر جنرل اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسکندر مرزا کا تعلق بھی ایران سے تھا۔1950 سے 1979 تک ایران پاکستان کو تیل اور سفارتی مدد کرنے والا ہم ملک تھا۔
1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی اور پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے سابق صدر اسکندر مرزا اور سابق آرمی چیف جنرل موسیٰ خان ایران میں مدفن ہیں۔
پاک ایران سربرہان کی مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے رفقا کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے صدیوں پر محیط ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز اور ان کے وفد کے ساتھ گفتگو میں سیاست، معیشت، بین الاقوامی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر کوئی بھی دہشتگردانہ اور مجرمانہ سرگرمی نہیں ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں سرحدی علاقوں میں تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘
ایران پاکستان کا پڑوسی و اسلامی رشتے میں بندھا ہوا دوست ملک ہے اور اسکے بھارت سے بھی ای اچھا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے اچھے تعلقات ہیں ۔خطے میں ایران واحد ملک ہے جو پاکستان اور بھارت مے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے حل کیلیے ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے اور اسکی پیشکش بھی کر رکھی ہے۔ اب گیند بھارت کی کورٹ میں ہے دیکھتے ہیں ادھر سے وزیر اعظم شہباز شریف کی امن کی خواہش کا کیا جواب آتا ہے-

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.