طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات اور ان کا حل
جب لڑکی لڑکا پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہو کر والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کر تے ہیں، تو یہ عمل ‘کورٹ میرج’ کہلاتا ہے۔ کورٹ میرج کی وجوہات اور ثمرات دونوں باعث فکر ہیں۔ اگر وجوہات پر نگاہ دوڑائی جائے، تو سب سے بڑی وجہ لڑکی یا لڑکے کے اہل خانہ کا راضی نہ ہونا ہے یا والدین کے حوالے سے یہ خوف کہ وہ شادی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ صورت حال شادی کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیوں کو ‘کورٹ میرج’ تک لے جاتی ہے، جو نہ صرف لڑکے اور لڑکی کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بنتی ہے، بلکہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی شدید پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اِس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہےاور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے،اگر دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط رہیں گی تو یہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا اور کبھی زوال پذیر نہیں ہوگا،عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے اگر دونوں فریق آپس میں برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزرکریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان رہتا ہے،چونکہ ہماری معاشرتی اقدار میں شادی ایک سمجھوتہ ہے،جو لوگ اپنے شریک حیات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور گھریلو وزندگی کے دیگر اُمور میں باہمی مشاورت اور رضامندی سے کام لیتے ہیں،ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں،اُن کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتہ نہیں کرپاتے اُن کا یہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ہے،اگر ہم پاکستان میں طلاق کے اِس بڑھتے ہوئے رحجان کی وجوہات کا ذکر کریں تو ہر ہونے والی طلاق کے پیچھے ایک الگ وجہ اور الگ کہانی ملے گی،مگرطلاق و خلع کے کیسیز کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے،جبکہ قربانی دینے کے عزم میں کمی،زبردستی شادی،مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،سماجی اسٹیٹس،حرص و ہوس،بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا،دوسری یا جلد بازی میں محبت کی شادی،انڈین ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات،معاشی مسائل،شوہر کا نشہ کرنا،وٹہ سٹہ یاخاندان سے باہر شادی کرنا اور نام نہاد این جی اوز کی جانب سے خواتین کی آگاہی(جسے بغاوت پر اُکسانا قرار دینا زیادہ مناسب ہے)کیلئے چلائے جانے والے پروگرام بھی طلاق و خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی عورت کے لیے جتنے مسائل شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اس کا خمیازہ اسے ساری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ گھر سے فرار ہوکر شادی کر کے وہ نہ صرف اپنے آپ کو دائو پر لگاتی ہے، بلکہ اس کے گھر والوں کے لیے بھی تاعمر شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ شادی کے بعد نہ صرف دنیا کے طعنے عورت کو جینے نہیں دیتے، بلکہ بعض اوقات مرد بھی اس پر اعتبار کھو دیتا ہے۔
پسند کی شادی ضرور کرنی چاہیے، لیکن اپنے والدین کی رضا مندی اور بھروسے کے بل بوتے پر۔ کورٹ میرج کرنے والے جوڑوں میں 80% عدالتوں میں خلع یا خرچہ نان و نفقہ کے مقدمے دائر کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو خاندان کی عزت سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جو کہ غلط نہیں ہے۔
جوانی کی رو میں بہ کر جب کوئی لڑکی کورٹ میرج کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو نہ تو اس کو آنے والے مستقبل کا خیال ہوتا ہے اور نہ گزرے ہوئے کل کی فکر۔ کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں میں 15 سال سے لے کر 24 سال کی عمر کا تناسب زیادہ ہے۔ اکثر لڑکیوں کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے ہوتے۔ اس ضمن میں وکلا کے ساتھ ساتھ نکاح خواں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورٹ میرج کے لیے آنے والے لڑکے، لڑکیوں کو پہلے ان کے عمل کے نتائج سے آگاہ کریں۔ ان کو صحیح راہ نمائی فراہم کریں۔
خلع و خرچ اور نان نفقہ کے کیسز کے تناسب کی بات کی جائے، تو جس تیزی سے مذکورہ بالا دعوے دائر ہو رہے ہیں۔ ہر شہر میں فیملی کورٹس کا کام بھی دُگنا ہو گیا ہے۔ عورت بعد از کورٹ میرج اکثر اوقات زیادہ سے زیادہ دو سے تین ماہ بعد ہی عدالتوں کا رخ کر رہی ہیں۔ کوئی خلع کے لیے تو کوئی خرچہ اور نان نفقہ کے لیے اور جن کو طلاق ہو جاتی ہے وہ دار الامان میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، کیوں کہ شاذو نادر ہی ایسی خواتین کو ان کے خاندان دوبارہ قبول کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو عورت کو عزت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔
اکثر دغاباز اور بہروپیے سیدھی سادی معصوم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کو استعمال کر کے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عدالتی امور کی انجام دہی کے دوران کئی ایسے مقدمات دیکھنے میں آتے ہیں، جن میں لڑکی نہایت پڑھی لکھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ لڑکا ان پڑھ یا اگر خواندہ بھی ہے، تو واجبی اور برائے نام۔ بعد ازاں معاملہ دونوں کی لڑائی اور طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ خواتین کو بھی اپنی پرور ش والدین کی عزت اور اپنے مستقبل کو پھلانگ کر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ پسند کی شادی کی تکمیل تب ہی ہوتی ہے، جب گھر والوں کی رضا مندی بھی شامل کی جائے۔
والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں، خصوصی طور پر اپنی بیٹیوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ بلا کسی جھجھک ایسے معاملات کا اظہار کر سکیں۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرتے ہوئے، انہیں محبت و شفقت سے سمجھائیں اور جب کوئی راستہ نہ نکلے، تو کوشش کریں کہ کوئی درمیانی راہ نکالیں، اپنی انا کو کم کریں اور قابل قبول حل پیش کریں اور کوئی درمیانی