ہر سال 8 مئی کو دنیا بھر میں “ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے” منایا جاتا ھے۔ اس دن کا مقصد عوام الناس کو اس خطرناک جینیاتیمرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا، مریضوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا اور مستقبل میں اس مرض کی روکتھام کے لیے مو¿ثر اقدامات کو فروغ دینا ھے۔ پاکستان میں جہاں ہزاروں بچے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہیں، وہاںکچھ ادارے اور افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس خاموش قاتل کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ھوا ھے۔ انہی میں ایک روشننام “نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن” کا ھے، یوں تو اس فاونڈیشن میں اپنی اپنی جگہ پر بہت سے لوگ کام کر رھے ہیں لیکنجس محنتی، انداز سے مخلص اور درد دل رکھنے والے اس ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بشیر کام کر رھے ہیں۔وہ اپنیمثال آپ ہیں۔ڈاکٹر بشیر ایک ایسے انسان ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انسانیت کی خدمت، خصوصاًتھیلیسیمیا جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا ھے۔ ان کی قیادت میں نورتھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن نے جس انداز میں ملک بھر میں آگاہی مہمات چلائیں، بلڈ کیمپس کا انعقاد کیا، مریض بچوں کو مفتعلاج اور خون کی فراہمی ممکن بنائی، وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔رواں برس بھی ڈاکٹر بشیر نے “ورلڈ تھیلیسیمیاڈے” کے موقع پر ایک شاندار آگاہی واک اور سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےوالے افراد، ڈاکٹرز، سوشل ورکرز، والدین اور نوجوان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس واک کا مقصد صرف تھیلیسیمیاکے بارے میں شعور بیدار کرنا نہیں تھا، بلکہ اس میں اس پیغام کو اجاگر کرنا بھی شامل تھا کہ ہم سب کو اجتماعی طورپر اس مرض کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔واک کا آغاز نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن کے دفتر سے ھوا، جہاںڈاکٹر بشیر نے شرکائ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:”تھیلیسیمیا ایک روگ مرض ھے، اگر بروقت تشخیص ہو جائےاور نکاح سے قبل خون کے ٹیسٹ کو لازم کر دیا جائے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس عذاب سے بچا سکتے ہیں۔ یہایک قومی مسئلہ بھی ھے، جس پر حکومت، میڈیا، علمائ کرام اور تعلیمی اداروں کو یک زبان ہو کر کام کرنا ہوگا۔“انکے خیالات نے وہاں موجود ہر فرد کے دل کو چھو لیا۔ والدین، جن کے بچے اس مرض میں مبتلا ہیں، انہوں نے نمآنکھوں کے ساتھ ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ تھیلیسیمیا کے مریض بچے، جو عموماً زندگی کے ہر لمحے کو خون کیبوتلوں کا محتاج ہو کر گزارتے ہیں، اس واک میں اپنی چھوٹی چھوٹی معصوم مسکراہٹوں کے ساتھ شریک ہوئے اور یہپیغام دیا کہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ لڑنے کا وقت باقی ھے۔نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن ایک ایسا ادارہ ھے جو نہصرف تھیلیسیمیا کے سات سو مریض بچوں کو مفت خون فراہم کرتا ھے بلکہ ان کے علاج، مشاورت اور نفسیاتیمعاونت کا بھی اہتمام کرتا ھے۔ ڈاکٹر بشیر کی شب و روز کی محنت سے اب یہ فاو¿نڈیشن صرف لاہور تک محدود نہیںرہی، بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی اپنی شاخیں قائم کرنے میں پر عزم ھے۔ ان کی قیادت میں اس ادارے نے وہخدمات انجام دی ہیں جو کہ حکومتی ادارے بھی کئی مرتبہ سرانجام نہیں دے پاتے۔تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ھےجو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ھے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں لاکھوں افراد تھیلیسیمیا کیریئر ہیں، جنہیں خود توبیماری لاحق نہیں ہوتی مگر اگر دو کیریئر افراد آپس میں شادی کر لیں تو ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا کا شکار ہونےکے امکانات 25 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن نکاح سے پہلے خون کے ٹیسٹ کولازم قرار دینے کی تحریک چلا رہی ھے۔ڈاکٹر بشیر کا کہنا ھے:”ہم بیماریوں کا علاج کرتے کرتے تھک جائیں گے،بہتر ہے کہ ہم بیماریوں کو آنے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ نکاح سے قبل خون کا ٹیسٹ ایک ایسا قدم ھے جوہزاروں بچوں کو تھیلیسیمیا جیسے مہنگے اور تکلیف دہ مرض سے بچا سکتا ھے۔“واک کے اختتام پر تھیلیسیمیا کےبچوں کے ساتھ ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں ان کے لیے تحائف، گیمز اور تفریحی سرگرمیوں اور کھانےکا اہتمام کیا گیا۔ ان بچوں کی آنکھوں میں چمک، خوشی اور ا±مید کے دیپ روشن تھے۔ ڈاکٹر بشیر اور مختلف شعبہھائے زندگی سے معروف شخصیات جن میں معروف فلم ڈائریکٹر سید نور ،ڈاکٹر صائمہ منصور بگوی ، عمیر احمدخان ڈائریکٹر نور فاونڈیشن، نے بچوں کے ساتھ وقت گزارا، ان سے باتیں کیں، ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ “آپلوگ ھمارے ہیروز ھو، آپ سے ہم سیکھتے ہیں کہ مشکلات میں کیسے جینا ھے“۔اس موقع پر مختلف میڈیا نمائندگان،معروف سوشل ایکٹوسٹ عدنان بھٹی، عاصم شفیق بٹ، چوہدری ابو بکر آل پاکستان انجمن تاجراں کے چئر مین معروفصحافیوں میں سید نسیم نقوی، شاھد حنیف، پروفیسر سیدہ روضی رضوی ،کشف سرور اور سوشل ایکٹیوسٹس سٹوڈنٹسنے بھی نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن کو وزٹ کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔ میرا بطور ایک معاشرتی ادیب حکومت سےمطالبہ ھے کہ اس ادارے کو قومی سطح پر سپورٹ فراہم کی جائے اور تھیلیسیمیا کے خلاف جاری مہم کو نصاب میںشامل کیا جائے تاکہ بچوں کو بچپن ہی سے اس مرض کی آگاہی ھو۔آج جب پاکستان میں صحت کے شعبے میں بے شمارچیلنجز موجود ہیں، ایسے میں ڈاکٹر بشیر جیسے لوگوں کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں۔ وہ اس اندھیر نگری میں امیدکا چراغ بغیر کسی لالچ اور معاوضہ کےچلا رھے ہیں۔ ان کی ذات اور ادارے کی خدمات کا دائرہ کار نہ صرف طبیبلکہ اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بھی اثرانداز ھو رہا ھے۔کالم کے اختتام پر میں بطور صحافی یہ سمجھتا ہوں کہڈاکٹر بشیر اور نور تھیلیسیمیا فاو¿نڈیشن جیسے کرداروں کو قومی سطح پر اعزازات سے بھی نوازا جانا چاہیے۔ ان کیخدمات کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے، تاکہ ہماری نئی نسل ایسے انسان دوست کرداروں سے متاثر ھو کر معاشرےکے لیے کچھ کر گزرنے کی تمنا پیدا کرے۔آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ:جو چراغ اوروں کے لیے جلتے ہیں، وہیچراغ قوم کے ماتھے کا جھومر بنتے ہیں۔ڈاکٹر بشیر ایک ایسا ہی چراغ ہیں اور دعا ھے کہ ان کا نور اس فاونڈیشن کوچلانے یعنی قوم کے معماروں یعنی پاکستان کی بچوں کو جنہوں نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنی ھے ان کو صحتفراہم
کرنے میں کبھی مدھم نہ ھو۔