جنگ بندی: بارود کے دھویں میں ایک سانس امن کی

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

3

جب توپ خاموش ہوتی ہے تو لفظوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ جب گولیاں رکتی ہیں تو آنکھیں آنسو نہیں، امید بہاتی ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور پھر اچانک جنگ بندی کا اعلان اُس تھکے ہوئے خطے کے لیے ایک سانس جیسا ہے جو برسوں سے خوف، نفرت اور عدم اعتماد کی سانسیں لے رہا ہے۔

لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں میں پاکستان کے کئی جوان شہید ہوئے، جب کہ بھارت نے بھی اپنے سولہ فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا۔ دونوں طرف معصوم شہری زد میں آئے۔ کوئی فاتح نہیں تھا، صرف جنازے تھے، آہیں تھیں، آنکھوں میں دھواں تھا۔ ایسے میں جنگ بندی کی خبر ایک لمحۂ اطمینان ہے، مگر یہ اطمینان تبھی پائیدار ہو سکتا ہے جب ہم اس کی جڑ میں موجود مسائل کا حل تلاش کریں، صرف خاموشی کو امن نہ سمجھ لیں۔

بدقسمتی سے اس بار بھی بھارتی میڈیا نے وہی پرانا کردار ادا کیا بغیر تحقیق الزام، بغیر ثبوت دعوے، اور بغیر لحاظ نفرت انگیز بیانیے۔ صحافت، جو سچ، توازن اور امن کی علمبردار ہونی چاہیے، وہاں جنگ کو TRP کا سامان بنا دیا گیا۔ جبکہ پاکستان کے بعض میڈیا ادارے نسبتاً متوازن اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے نظر آئے۔ مگر دونوں جانب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کے مسئلے کو خبر کی دوڑ میں تبدیل نہ کیا جائے۔

ایسے میں ایک شاندار مثال سکھ برادری نے قائم کی۔ اس نازک وقت میں اُنہوں نے جذباتیت سے ہٹ کر ہوش، تحمل اور فہم و فراست کا مظاہرہ کیا۔ بالخصوص خالصتان تحریک کے رہنما گُرپت ونت سنگھ پنوں کا بیان عالمی میڈیا میں موضوع بحث بن گیا جس میں انہوں نے بھارتی پنجاب کے سکھوں سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی جنگ کا حصہ نہ بنیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو “دو کروڑ سکھ پاکستان کے ساتھ دیوار بن کر کھڑے ہوں گے”۔ یہ بیان بھارت میں بغاوت تصور کیا گیا، مگر درحقیقت یہ اُس دباؤ کا اظہار تھا جو بھارت میں اقلیتیں برسوں سے محسوس کر رہی ہیں۔

سکھوں کی اکثریت نے اس بیان سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے بھائی چارے اور امن کی علمبرداری کی روایت کو برقرار رکھا۔ یہی وہ معتدل آوازیں ہیں جنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت میں بھی تقویت دینا ہوگی۔ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، خواہ وہ مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا دلت—بھارت کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کر رہی ہے۔ اور مودی سرکار کی وہ انتخابی مہم جس میں وہ ہر ریاست جا کر اسے “نمبر ون” بنانے کا وعدہ کرتے ہیں، دراصل داخلی تضادات کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ترقی صرف وعدوں سے نہیں، نیت، پالیسی اور شمولیت سے آتی ہے۔

اسی تناظر میں انڈس واٹر ٹریٹی کا ذکر بھی ضروری ہے۔ 1960 میں ہونے والا یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ضامن تھا، مگر اب اسے بارہا سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے ڈیمز کی تعمیر اور دریاؤں کا رخ موڑنے کی کوششیں محض معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ پاکستان کے لیے ماحولیاتی، زرعی اور معاشی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ پانی زندگی ہے، اسے ہتھیار نہ بنایا جائے۔ انڈس واٹر ٹریٹی کی ازسرنو تشریح، آزاد ماہرین کی نگرانی، اور ثالثی کا شفاف نظام وقت کی ضرورت ہے۔

امن محض توپ کی خاموشی کا نام نہیں، وہ معاہدوں کی سنجیدگی، میڈیا کی ذمہ داری، اقلیتوں کے تحفظ اور قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے جنم لیتا ہے۔ یہ جنگ بندی اگر ایک موقع ہے تو ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، بصورت دیگر تاریخ ہمیں ایک اور موقع ضائع کرنے والی قوم کے طور پر یاد رکھے گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.