پاک بھارت کشیدگی — ایک خطرناک موڑ پر

تحریر: رخسانہ سحر اسلام آباد

6

22 اپریل 2025 کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے میں 28 افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت ہندو سیاحوں کی تھی۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں پر عائد کیا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اس واقعے کے بعد بھارت نے “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان میں مبینہ دہشت گرد ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے ۔

بھارتی حملوں کے جواب میں پاکستان نے 25 بھارتی ڈرونز مار گرانے اور متعدد بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔ امریکہ، چین، روس اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھی فوری طور پر کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے ۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں جوہری جنگ کا خطرہ “واضح اور موجود” ہے ۔ اگر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کریں اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ امن، استحکام اور ترقی کے لیے دونوں ممالک کو سنجیدگی سے سفارتی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔برصغیر کی تاریخ میں نفرت کا بارود ہر نسل کے ہاتھوں میں کسی نہ کسی شکل میں تھما دیا گیا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی قوم پرستی کے پردے میں، تو کبھی غیرتِ قومی کے جذبات کو بھڑکا کر — اور اب پھر، پاک بھارت تعلقات کی فضا میں بارود کی بو ہے۔ پہلگام کا دردناک سانحہ، جو ہر انسانی دل کو دہلا دینے کے لیے کافی تھا، ایک بار پھر جنگی جنون کی راہوں کو ہم وار کر رہا ہے۔

جنگ صرف ٹینکوں کی گھن گرج یا میزائلوں کی گونج نہیں ہوتی۔ یہ اُن ماؤں کی چیخ ہے جن کے بیٹے کبھی واپس نہیں آتے، اُن بچوں کی خاموشی ہے جو باپ کی انگلی تھامنے کو ترستے ہیں، اُن بستیوں کی راکھ ہے جو کبھی زندگی سے لبریز تھیں۔ جنگ صرف دو فوجوں کے درمیان نہیں ہوتی، یہ انسانیت کے خلاف ہوتی ہے۔ جب ہم جنگ کی بات کرتے ہیں، تو درحقیقت ہم انسانوں کی زندگی، خواب اور امیدوں کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان، دونوں ایٹمی قوتیں، اگر جنگ کی طرف بڑھتے ہیں تو اس کے نتائج صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہیں گے۔ پورا جنوبی ایشیا، اور شاید دنیا کا توازن، ایک ناقابلِ واپسی نقصان کا سامنا کرے گا۔ جنگ کوئی فلمی منظر نہیں جو ہیرو کی فتح پر ختم ہو، یہ ایک نہ ختم ہونے والا زخم ہے — نسلوں تک رسنے والا۔

سوال یہ ہے کہ ہم بار بار اسی راہ پر کیوں چلتے ہیں؟ وجہ صرف ایک ہے: دونوں جانب جذبات کو اشتعال دلا کر سیاسی فائدے حاصل کرنے والے عناصر۔ میڈیا، جو پل بن سکتا تھا، نفرت کی دیوار بنا دیا گیا۔ تعلیمی نصاب، جو امن کا سبق دے سکتے تھے، تاریخ کو دشمنی کے قالب میں ڈھالنے لگے۔ اور نوجوان نسل، جو دنیا میں کچھ بننے کا خواب لے کر جوان ہوتی ہے، جنگ کے خواب دکھا کر گمراہی میں دھکیل دی جاتی ہے۔

ہمیں اس بیانیے کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگ نہ کبھی مسئلے کا حل تھی، نہ ہے، نہ ہو سکتی ہے۔

ہمیں وہ آوازیں بلند کرنی ہوں گی جو امن، سمجھوتے، اور انسانیت کی بات کریں۔ ہمیں سیاسی قیادتوں سے سوال کرنا ہوگا کہ وہ جنگی بیانیے کی بجائے مفاہمت کا راستہ کیوں نہیں اپناتے؟ ہمیں تعلیمی اداروں میں جنگ کی ہیبت سے زیادہ امن کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔ ہمیں میڈیا کو نفرت کے ہتھیار کی بجائے مکالمے کا پل بنانا ہوگا۔

جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ جو ملک بھی “جیتتا” ہے، وہ دراصل لاکھوں لاشوں کے ملبے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اور لاشوں پر کھڑی کوئی بھی “فتح” ایک مستقل شکست ہوتی ہے — انسانیت کی شکست۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام، ادب، دانش، اور نوجوان طبقے اس جنگی جنون کے خلاف کھڑے ہوں، اور اپنی حکومتوں کو یہ پیغام دیں:
ہمیں امن چاہیے — بارود نہیں، مکالمہ چاہیے — مرنے مارنے کی دھمکیاں نہیں۔
ہمیں دشمن نہیں، ہمسایہ بننا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں: جنگ مسئلے کا حل نہیں۔

جنگیں مذاق نہیں ہوتیں

جنگیں مذاق نہیں ہوتیں،
یہ گیتوں کی زبان چراتی ہیں،
یہ آنکھوں کے خواب جلاتی ہیں،
یہ ننھی ہنسی کا گلا گھونٹتی ہیں،
یہ ماؤں کی گودیں سونی کرتی ہیں۔

یہ گلیوں کے رنگ مٹا دیتی ہیں،
یہ دیواروں سے تصویریں چھینتی ہیں،
یہ کتابوں سے لفظ،
لبوں سے دُعائیں
اور دلوں سے یقین چُرا لیتی ہیں۔

تاریخ کو راکھ میں ڈھالتی ہیں،
ورثہ، ثقافت، سب کچھ ہی نگلتی ہیں،
جنگیں بس جسم نہیں،
روحوں کا بھی خون بہاتی ہیں۔

یہ سروں سے چادر،
ہاتھوں سے قلم،
اور دلوں سے رحم چرا لیتی ہیں۔

جنگیں پیار کی ضد ہیں،
یہ محبت کی مٹی پر بارود ہی بوتی ہیں،
انساں کو “قوموں” میں تقسیم ہیں کرتیں
انسانیت کی جڑ کاٹتی ہیں۔

جنگیں مذاق نہیں ہوتیں…
بھرپور تباہی ہوتی ہیں،
ایک ایسا زخم،
جو نسلوں تک رِستا ہے،
جو صرف مٹی نہیں،
اِس چکّی میں انساں کا ضمیر بھی پِستا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.