نعت گوئی اور محفلِ سماع: عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا جمالیاتی و روحانی اظہـار

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی )

3

منہاج یونیورسٹی لاہور میں گزشتہ دنوں منعقدہ “چوتھی قومی ادبی نعت کانفرنس” میں ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نےاظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعت گوئی محض ایک ادبی صنف نہیں، بلکہ یہ عشقِ رسول ﷺ کا وہ اظہار ہے جو دلوں کو پاکیزہ، فکر کو معطراور کردار کو منور کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نعت گوئی نسلِ نو کی فکری و اخلاقی تربیت کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں انسان اپنی باطنی کوتاہیوں کو دیکھ کر اصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے اور سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے سانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ نعت فقط لفظوں کی آرائش نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے جذبات کا بیان ہے جو ایمان کو حرارت بخشتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ برصغیر میں نعتیہ شاعری کو ہمیشہ تقدس حاصل رہا ہے۔ امام احمد رضا خان بریلویؒ، الطاف حسین حالی، حفیظ تائب اور پروفیسر انور مسعود جیسے شعرا ءنے نعت کو فنی بلندی کے ساتھ ساتھ روحانی نور سے ہمکنار کیا۔ جب نعت خلوصِ دل سے کہی جائے تو وہ سامع کے دل میں عشق، آنکھوں میں اشک اور روح میں سوز و گداز پیدا کر دیتی ہے۔
نعت گوئی کی طرح نعت خوانی بھی ایک باوقار اور مقدس فن ہے۔ ڈاکٹر قادری کے مطابق نعت خواں زبان سے عشقِ رسول ﷺ کا اظہار اور دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ جب وہ ادب، خشوع اور محبت سے نذرانۂ عقیدت پیش کرتا ہے تو سامع کی روح میں تازگی، دل میں عشق، اور کردار میں تبدیلی کی بنیاد رکھتا ہے۔
پروفیسر صاحب نے محفلِ سماع کے روحانی اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق سماع محض موسیقی نہیں، بلکہ ذکرِ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا وہ امتزاج ہے جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ صوفیائے کرام جیسے حضرت خواجہ غریب نوازؒ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت امیر خسروؒ نے محفلِ سماع کو تزکیۂ نفس، طہارتِ قلب اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بنایا۔انہوں نے واضح کیا کہ محفلِ سماع کی حلت و حرمت نیت، انداز اور ماحول پر منحصر ہے۔ اگر یہ شریعت کی حدود کے اندر، ادب و وقار کے ساتھ ہو تو روحانیت کا دروازہ کھلتا ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر اس میں غیر شرعی آلات، بے حیائی یا نفس پرستی شامل ہو تو یہ ممنوع قرار پاتا ہے۔ امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور امام یوسف نبہانیؒ جیسے اکابرین نے اسی اصول پر سماع کی مشروعیت کو تسلیم کیا ہے۔
قوالی، جو محفلِ سماع کا جزوِ لاینفک ہے، اشعار، موسیقی اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے۔ امیر خسروؒ نے اس روایت کو فروغ دے کر برصغیر میں اسلامی روحانیت کا ایک زندہ مظہر قائم کیا۔ ان اشعار میں توحید، عشقِ رسول ﷺ، زہد اور فناء فی اللہ جیسے تصورات کو سادہ مگر پُراثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
پروفیسر قادری نے عصرِ حاضر میں نعت اور سماع کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جدیدیت، مادیت اور اخلاقی زوال کے اس دور میں نوجوان نسل کو روحانی ذوق، عشقِ مصطفیٰ ﷺ اور سیرتِ نبوی ﷺ سے جوڑنے کے لیے ان ذرائع کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ منہاج یونیورسٹی جیسے ادارے اس سلسلے میں ایک روشن مثال ہیں، جہاں دینی و دنیاوی علوم کے امتزاج سے طلبہ کی فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت ممکن ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا اظہار صرف نعت یا سماع تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے۔ جب دل میں سچی محبت پیدا ہو جائے تو اس کا اثر سوچ، گفتگو، کردار اور معاشرت پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو نعت اور سماع جیسے جمالیاتی ذرائع سے ممکن ہے۔
آخر میں انہوں نے فرمایا کہ نعت گوئی اور محفلِ سماع جیسے ذرائع ہمارے معاشرتی اور روحانی زوال کا علاج ہیں۔ ان کی ترویج سے نہ صرف افراد بلکہ معاشرہ ایمان، اخلاق اور روحانیت کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ نعت وہ آئینہ ہے جس میں سیرتِ طیبہ ﷺ کا عکس جھلکتا ہے اور سماع وہ دریا ہے جس کی لہروں میں ذکرِ الٰہی کی صدائیں گونجتی ہیں۔ ان دونوں کو نئے شعور، ذوق اور اپروچ کے ساتھ اپنانا ہماری نسلوں کی فکری و روحانی نجات کے لیے ناگزیر ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.