ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں سوچنا بغاوت ہے، سوال کرنا گستاخی، اور تحقیق کرنا ایمان کے خلاف جرم۔ یہاں علم کا پیمانہ ڈگری ہے، اور عقل کا تعین آواز کے والیم سے ہوتا ہے۔ جتنا بلند بولیں، اتنے ہی سچے سمجھے جاتے ہیں۔ دلیل سے زیادہ ہاں میں ہاں ملانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایسی نسلیں پیدا کر لی ہیں جو اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے نکل کر، ڈگریاں تو سجا لیتی ہیں، مگر ذہن کے دریچے بند رکھتی ہیں۔ وہ ہر جمعے کی پہلی صف میں کھڑے ہو کر ایک ایسے خطیب کی باتوں پر “بےشک بےشک” کہتے ہیں جس کی اپنی عقل شاید پہلی جماعت میں ہی کہیں رہ گئی ہو۔ وہ خطیب جو سوال کو گناہ سمجھتا ہے اور تجزیے کو فتنہ۔
ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر بچے سوال نہیں کریں گے، تو وہ اندھی تقلید کے پروردہ بنیں گے۔ وہ کسی بھی آواز کے پیچھے چل پڑیں گے، چاہے وہ آواز دلیل سے خالی کیوں نہ ہو۔ وہ جذباتی نعروں پر تالیاں بجائیں گے، سچائی کی کھوج میں نہیں نکلیں گے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوال کو شرم بنا دیا ہے، جب کہ سوال تو شعور کی پہلی سانس ہے۔
ہم نے اختلاف کو بےادبی سمجھ لیا ہے، جب کہ اختلاف ہی ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔
ہم نے اپنے ذہنوں کو تالے لگا دیے ہیں، اور کنجی کسی اور کے ہاتھ میں دے دی ہے۔
یہ جو آج کا نوجوان ہے، یہ جو کل کا رہنما بنے گا، اگر آج اُس کے ذہن میں سوال پیدا نہ ہوئے تو کل وہ اندھی تقلید میں بہنے والا ایک ایسا “باشعور” شہری ہوگا جو فیصلے خود نہیں کرے گا، بلکہ کسی اور کی لکھی تقریر دہراتا رہے گا، چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔
علم صرف رٹنے کا نام نہیں، وہ تو ہر اُس “کیوں” سے پیدا ہوتا ہے جو سکوت کو توڑ دے۔ جو سوال کرے کہ:
یہ بات کیوں کہی گئی؟
اس دلیل کا ماخذ کیا ہے؟
کیا یہ سچ ہے یا صرف سنا ہوا؟
ورنہ ہم ہر جمعے کی پہلی صف میں کھڑے، آنکھیں بند کیے، “بےشک بےشک” کی تسبیح پڑھتے رہیں گے—بغیر سمجھے، بغیر پرکھے، بغیر جانے۔
اور یہ تسبیح عبادت نہیں، ذہنی غلامی کا وظیفہ بن چکی ہوگی۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ علم صرف رٹنے کا نام نہیں، وہ سوال سے جنم لیتا ہے، تجزیے سے پروان چڑھتا ہے اور دلیل سے روشن ہوتا ہے۔
اگر ہم نے اپنی نسلوں سے سوال کا حق چھین لیا، تو ہم محض تعلیمی سندوں کے گلدستے تو تیار کریں گے، مگر اُن کے ہاتھوں میں چراغِ فہم نہیں ہوگا۔
لہٰذا ہمیں خود بھی “بےشک” کہنے سے پہلے سوچنے کا ہنر سیکھنا ہوگا،
اور سچ کو صرف سننا نہیں، پرکھنا بھی ہوگا۔
شاید اسی ادھ کھلے سوال سے کوئی مکمل جواب نکل آئے۔
شاید کسی دن “بےشک” سے پہلے “کیوں” کا سورج طلوع ہو جائے۔