پہلے شہروں میں نالیوں اور گندۓ نالوں کا نظام ہوا کرتا تھا ۔چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گندہ پانی بڑی نالی پھر اس سے بڑی نالی اور پھر بڑے نالے میں جا گرتی تھی اور پھر یہ نال کسی گندے پانی کے جوہڑ ،تالاب یا دوبےمیں چلا جاتاتھا ۔یہ دوبے ،جوہڑ اور تالاب ہمیشہ پانی سے بھرۓ رہتےتھے ۔جہاں سے صاف کرکے نالوں کے ذریعے یہ پانی کاشتکاری کے استعمال میں آجاتا تھا ۔ہر شہر کوئی نہ کوئی گندے پانی کا جوہڑ ،تالاب یا دوبہ ضرور ہوتا تھا اور گندۓ نالے بھی بناۓ جاتے تھے تاکہ شہر کا پانی باہر جاتا رہے ۔گلیوں میں نالیاں صاف کرنے کے لیے روزآنہ کی بنیاد پر لوگ متعین ہوا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنی گلی کی نالی کو صاف رکھنا اور بند نہ ہونے دینا ہر فرد اپنا فرض سمجھتا تھا ۔ان نالیوں میں صرف پانی بہتا تھا دوسری غلاظت شامل کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا دیگر غلاظت اور گندگی کی صفائی اور اٹھانے کے لیے روزآنہ کی بنیاد پر صفائی والے ہر گھر آتے تھے جنہیں اس کا معاوضہ دیا جاتا تھا ۔بارش کا پانی بھی انہیں نالیوں اور نالوں کے ذریعہ اندرون شہر سے نکل جاتا تھا۔پھر انسانی ترقی کی باعث گٹر سسٹم وجود میں آیا اور گلیوں محلوں میں سیمنٹ کے پائپ ڈال کر تمام پانی اور گندگی کو ایک بڑۓ پائپ تک لایا جاتا جہاں سے وہ ڈسپوزل تک پہنچتا یوں انسانی صفائی کا کام کم ہو گیا اور اب صرف یہ گٹر لائنیں کبھی کبھی صاف کر دی جاتی تھیں ۔یہ ذمہ داری بلدیاتی اداروں اور میونسپلٹی کی ہوتی تھی کہ وہ ان کی صفائی کو یقینی بناۓ ۔وقت کے ساتھ ساتھ شہر پھیلتے گئے اور پانی کا استعمال بڑھنے لگا تو سیوریج کے میگا پراجیکٹ کی ضرور ت محسوس ہونے لگی تو صفائی کی ذمہ داری کا بوجھ مقامی بلدیاتی اداروں نے سنبھال لیا اور ہر گھر کسے سیوریج ٹیکس کی وصولی جاری ہے ۔بے تحاشا تعمیرات کی وجہ سے پہلے سے موجود انتظامات فیل ہونے لگے تو بڑے بڑے شہروں میں سیوریج کے میگا پراجیکٹ بناۓ گئے لیکن جب تک وہ مکمل ہوتے اس سے پہلے ہی آبادی میں اضافہ ہو جاتا اور یہ میگا پراجیکٹ اپنی افادیت کھو بیٹھتے ۔ان کی صفائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی بجاۓ پرانا بلدیاتی عملہ ہی سرتوڑ کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہےکہ پلاننگ کے فقدان کی باعث اب ہمارۓ شہروں کے سیوریج سسٹم ضروت پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوچکے ہیں ۔شہر کی گلیاں اور محلے گندۓ پانی کی نکاسی نہ ہونے سے پانی سے بھرۓ ہوۓ دکھائی دیتے ہیں ۔لوگوں کو اپنے گھروں میں جانے کے لیے بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔دراصل اب یہ معاملہ بلدیاتی اداروں کے بس کی بات بھی نہیں رہا آبادی اور تعمیرات کے مناسبت سے میگا سیوریج سسٹم کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جس کی پلاننگ اگلے پچاس سال کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کی جاۓ ۔یہ سیوریج کسی ایک شہر یا قصبے کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ جگہ جگہ یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے ۔بارش اب صرف ٹھنڈک کا پیغام نہیں لاتی بلکہ شہریوں کے لیے ایک آزمائش بھی بن جاتی ہے ۔موسم کی پہلی بوند گرتے ہی یوں لگتا ہے کہ جیسے شہر کے زخم ہرۓ ہوگئے ہیں ۔گلیاں دریا ،بازار ندی اور گھر کشتیوں میں بدل جاتے ہیں ۔یہ کسی ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ شاید ہر ہر شہر کا المیہ ہے ۔جس کی بنیادی وجہ ناقص سیوریج کا موجودہ نظام ہے ۔جدید دنیا میں سیوریج نظام کسی بھی شہر کی ریڑھ کی ہڈی تصور ہوتا ہے لیکن ہمارۓ ہاں یہ صرف برسات کے موسم میں ہمیں یاد آتا ہے ۔پرانی نالیاں ،بند گٹر ،اور بارش و فضلے کا مشترکہ نظام ہر بار شہری زندگی کو مفلوج کردیتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ اور کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟
گزشتہ روز میرے دوست عزیز اللہ خان نے اپنے ایک ویلاگ میں اپنے شہر احمدپور شرقیہ کی محرومیوں خصوصی پھیلتی گندگی اور سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہوۓ سیوریج کے پانی پر تفصیلی بات کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ صاف ستھراپنجاب صرف لاہور تک محدود کیوں ہے ؟ شاید انہیں شہر میں گندگی کے ڈھیروں اور شہر بھر میں سیوریج کی بندش کی وجہ سے کھڑۓ پانی کی تکلیف نے بہت ہی مجبور کردیا ہے کہ وہ صداۓ احتجاج بلند کریں کیونکہ اس کے علاوہ ہم اور آپ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے؟ احمدپور شرقیہ ان کا ہی نہیں میرا بھی شہر ہے ہر شادی غمی و خوشی میں مجھے وہاں جانا ضروری ہوتا ہے ۔کچھ عرصہ قبل شہر کے وسط میں واقع راؤ کالونی جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ کالونی کی تمام گلیاں سیوریج کے گندے پانی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی نکاسی کی صورتحال نہیں ہے ۔لوگ کس کس طرح اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے ۔سیوریج کسی ایک شہر کا نہیں بلکہ آج کے دور میں ہر شہر کا مسئلہ بن چکا ہے ۔سیوریج کے پانی کے لگاتار کھڑے ہونے سے اب تو لوگوں کے گھروں تک کے بیٹھنے یا گرنے کے خدشات جنم لے چکے ہیں ۔خیال یہ ہے کہ برسوں پرانہ یہ مسئلہ کسی احتجاج یا دھرنے سے ٹھیک نہیں ہونے والا بلکہ اس کے لیے ایک طویل المعیاد پالیسی چاہیے جس کے لیے تمام متعلقہ اداروں اور لوگوں کو سرجوڑنا ہوگا ۔
سیوریج کی باعث ڈوبتے شہروں اور قصبوں کا المیہ بظاہر تکنیکی سا لگتا ہے لیکن اس کی جڑ میں انتظامی نااہلی ،منصوبہ بندی کا فقدان ،اور سیاسی عدم دلچسپی ہوتی ہے ۔اس کا حل صرف نالیوں کی صفائی یا وقتی بندوبست سے ممکن نہیں بلکہ یہ ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے ۔اس بارۓ میں ہمیں قابل عمل حل کی جانب جانا ہوگا ۔سب سے پہلے ایک جامع ماسٹر پلان کی تشکیل ضروری ہے ۔ہر شہر یا قصبے سیوریج ،نکاسی آب اوربارش کے پانی کے لیے الگ الگ ماسٹر پلان بنانا ہوں گے ۔پرانے نظام کی تجدید کے ساتھ ساتھ ان سسٹمز کو جدید تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے سے بھی اس میں بہتری آسکتی ہے ۔اختیارات اور فنڈز بلدیاتی سطح پر منتقل کئے بغیر اور شہری حکومتوں کو خود مختیار بناۓ بنا اس مسئلے کا دیر پا حل بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ نالیوں کی باقعدہ صفائی اور مانیٹرنگ بلدیاتی سطح پر ہی کی جاسکتی ہے ۔جب تک عوام خود بھی نالیاں بند کرنے ،پلاسٹک ،شاپر اور کچرا نالوں میں پھینکنے سے باز نہیں آئیں گے کوئی نظام موثر نہیں ہو سکتا مہمات ،میڈیا اور اسکول کی سطح پر عوامی آگاہی ضروری ہے۔ڈرونز ،سینسرز اور جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے سیوریج نیٹ ورک کی نگرانی اور بندش کی پیشگی اطلاع جدید ٹیکنالوجی اپنا کر کی جاسکتی ہے ۔یاد رکھیں شہر یونہی نہیں ڈوبتے یہ غفلت ،ناقص منصوبہ بندی اور اجتماعی بےحسی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ہمیں اب بھی ہوش آجاۓتو شاید اگلی بارش کے ساتھ زندگی تھمےنہیں بلکہ مسکرانے لگے ۔