امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اب محض اقتصادی محاذ آرائی نہیں رہی، بلکہ یہ ایک عالمی طاقت کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اور اس کشیدگی کا اثر پوری دنیا پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے چینی مصنوعات پر بھاری درآمدی ٹیکس لگانے کے فیصلے کے بعد بیجنگ نے بھی سخت ردعمل دیا ہے، اور یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ کے آگے نہیں جھکے گا۔
یہ صورتحال صرف ایک معاشی تنازع نہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سفارتی کھیل کا حصہ ہے۔ امریکہ، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی معیشت پر اپنی گرفت رکھتا آیا ہے، اب چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف نظر آتا ہے۔ دوسری جانب، چین اپنے ترقیاتی منصوبوں، مضبوط پیداواری صلاحیت اور تکنیکی ترقی کی بنیاد پر امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا خیال تھا کہ بھاری محصولات عائد کرکے وہ چین کو دباؤ میں لے آئے گا اور اسے تجارتی مراعات دینے پر مجبور کر دے گا، لیکن چین نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس دباؤ کو قبول کرنے کے بجائے اپنی حکمت عملی خود طے کرے گا۔ بیجنگ نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
عالمی معیشت کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ جنگ مزید طول پکڑتی ہے تو دنیا کو ایک نئے مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یورپی ممالک بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور کئی یورپی حکومتوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکی محصولات کا جواب دینے کے لیے اپنی پالیسیاں سخت کر سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے تجارتی اقدامات کے اثرات صرف چین تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئی اقتصادی کشیدگی جنم لے سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی یہ جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ ہواوے جیسے چینی ادارے امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، اور سیمی کنڈکٹرز کی برآمد پر سخت ضوابط عائد کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کو جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی سے روکا جائے، تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنی ڈیجیٹل معیشت کو مستحکم نہ کر سکے۔ لیکن چین بھی خاموش نہیں بیٹھا، اور وہ متبادل ذرائع تلاش کر رہا ہے تاکہ اپنی تکنیکی ترقی کو جاری رکھ سکے۔
یہ صورتحال پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ چین، جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اگر کسی بڑے معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس کے براہ راست اثرات پاکستانی معیشت پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ سی پیک جیسے منصوبے، جو پہلے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، مزید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں۔
تجارتی جنگیں عام طور پر کسی بھی ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ امریکہ اور چین دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر عالمی معیشت کو مستحکم رکھنا ہے تو مذاکرات اور باہمی تعاون کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ بصورت دیگر، دنیا ایک ایسے معاشی عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے، جس کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔