کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اکیس اپریل 1938 کا دن تاریخ کے افق پر ایک اندوہناک لمحہ بن کر ابھرا، جب ایک روشن ستارہ—جو 61 برس تک فکری اُفق پر ضوفشانی کرتا رہا—خاموشی سے غروب ہو گیا۔ مگر یہ ستارہ محض ایک فرد نہ تھا، وہ چراغ تھا جس کی لو آج بھی زمانوں کو منور کر رہی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ—شاعر مشرق، مفکر اسلام، حکیم الامت—وہ عظیم روح تھے جنہوں نے خوابوں کو تعبیر دی، اور غلام ذہنوں کو خودی کا شعور عطا کیا۔ ان کی فکر کی ایسی گہرائیاں ہیں کہ دنیا بھر کی جامعات نے ہزاروں محققین کو ان کے فلسفے پر جھکا دیا، مگر پھر بھی پیاس بجھ نہ سکی، تشنگی کم نہ ہوئی۔
آج، اکیس اپریل 2025 کو جب ان کے وصال کو اکاسی برس بیت چکے ہیں، دل پھر سے اداس ہے، روح پھر سے سوال کناں ہے۔ بادشاہی مسجد کے سائے میں آج بھی علم سے عشق رکھنے والے دل، عقیدت سے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ہم نے اقبال کو صرف یاد رکھنے کا نام ہی عقیدت رکھ چھوڑا ہے؟ یا ہم نے ان کے پیغام کو اپنی سوچ، اپنے کردار، اپنی نسلوں کی تربیت کا حصہ بنایا؟ کیا ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اُس اقبال سے روشناس کرایا ہے جو ہر دل میں خودی کی چنگاری روشن کر کے، اُسے شاہین کی پرواز عطا کرنا چاہتا تھا؟ یہ دن صرف یاد کا نہیں، یہ دن عہدِ نو کا پیغام دیتا ہے—کہ ہم سوچیں، جاگیں، اور اُس خواب کی تعبیر بنیں جسے اقبال نے ہمارے لیے دیکھا تھا۔ مگر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم واقعی اقبال کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں جذب کر پائے ہیں؟ کیا ہم نے نوجوان نسل کو اُس انقلابی فکر سے روشناس کرایا ہے جو ان کی روح میں تحرک اور خودی کی آگ بھڑکا دے؟ وہ بلند ہمت میر کارواں ہیں اپنی فکر کی قوت سے شعر کی زمیں پر جب لفظوں کے قدم رکھتے ہیں تو ایک ہی جست میں آسماں پر ہوتا ہے۔ وہ سخنوری کی ایسی کرن ہے جس کے آگے ہزاروں آفتاب معدوم ہیں۔
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
علامہ اقبال کی حیات و فکر کا محور انسان، اس کی روحانی عظمت اور اسلام کی آفاقی تعلیمات تھیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک کے پسِ پردہ چھپی فکری افلاس کو بے نقاب کیا اور امتِ مسلمہ کو ان کی گم شدہ خودی کا شعور عطا کیا۔ اقبال کی زندگی کائنات، اقوامِ عالم، انسانی رویّوں اور مذاہب، بالخصوص دینِ اسلام کی گہری تفہیم میں بسر ہوئی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے یونانی، اسلامی اور مغربی مفکرین جیسے مولانا جامی، پیر رومی، نطشے، گوئٹے، کارل مارکس، آئن سٹائن، شوپن ہاور، دانتے، برگساں اور ملٹن کے افکار سے بصیرت حاصل کی۔ بحیثیت ایک وسیع النظر شاعر اور مفکر، انہوں نے ان دانشوروں کے خیالات کا نہ صرف عمیق مطالعہ کیا بلکہ کھلے دل و دماغ سے ان کے افکار کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو قبول کیا۔ اقبال نے علم و حکمت کے ان متنوع سرچشموں سے جو روشنی حاصل کی، اسے اپنی ملت کے نوجوانوں کی فکری تربیت کے لیے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری محض الفاظ کا حسین امتزاج نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر فکری تحریک ہے۔ ان کے کلام میں پیغام ہے، سوز و درد ہے، عمل کی دعوت ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک روحانی بیداری کی دل آویز صدا ہے۔ اقبال کی شاعری امتِ مسلمہ کی یکتائی اور یکجائی کی آرزو کا آئینہ ہے
اقبال محض ایک شاعر نہیں بلکہ وہ خودی اور شاہین کا استعارہ ہیں وہ اپنی ذات میں الفاظ و فکر کا ایک مکمل ملکوتی جہان ہیں۔ ان کے نزدیک بندگی کسی کے حضور محض جھکنے کا نام نہیں۔ یہ صرف چند ظاہری عبادات یا رسوم کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ شعورِ عبدیت ہے جو انسان کو رب سے ہمکلام کرتا ہے۔ وہ بندگی جو انسان کو غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلاتی ہے، جو انسان کو مقصد، جدوجہد، اور حرکت کا شعور عطا کرتی ہے۔ ان کے نزدیک وہی بندگی اصل ہے جو انسان کو اپنی ذات سے بلند کر کے اللہ کی رضا میں فنا کر دے۔ وہ کہتے ہیں:
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ایسی بندگی، جس میں انسان ہر غیر اللہ سے لاتعلقی اختیار کر کے صرف اپنے رب کے در پر سجدہ ریز ہو۔ جو کلمہ اس طرح پڑھے کہ لا الہ الااللہ کا عین ہو جائے۔ جو فناء کے سینے سے بقاء کو پیدا کرے، وہی حقیقی آزادی ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اقبال کے نزدیک جب بندہ خالص ہو کر اللہ کا ہو جاتا ہے، تو پھر اس کے ارادے، اس کے عمل، اس کا ہر فیصلہ اللہ کی رضا کا مظہر بن جاتا ہے۔ اقبال کی فکر کا دوسرا مرکزی نکتہ “خودی” ہے—یعنی اپنے آپ کو پہچاننا۔ وہ بار بار انسان کو اس کی فطری عظمت کا احساس دلاتے اس قول زریں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ
(جس نے خود کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا)
بندہ مؤمن شو، کہ بندہ اے خداست
خاک او بر فرقِ تاجِ پادشاہست
(ترجمہ: مؤمن بندہ بن، کیونکہ وہی اللہ کا بندہ ہے؛ اُس کی خاک بادشاہوں کے تاج پر فضیلت رکھتی ہے
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبال کا انسان ستاروں سے مرعوب نہیں ہوتا، بلکہ ان کی تسخیر کا عزم اپنے سینے میں لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اقبال اپنے اشعار کے ذریعے عقل کے دروازے ایک ایک کر کے کھولتے ہیں، یہاں تک کہ صدیوں بعد بھی صاحبِ فہم و ادراک افراد ان کے کلام کو پڑھ کر حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان کا تصورِ انسان، ایک ایسی نظر کا حامل ہے جو پلک