پاکستان ‘ چین سمیت مختلف ممالک کی 80 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں ‘ برآمدات کی بلیک لسٹ میں شامل

اداریہ

22

امریکا نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی 80 کمپنیوں کو برآمدات کی بلیک لسٹ میں شامل کردیا۔
غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق جن ممالک کی کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں پاکستان، چین، ایران، متحدہ عرب امارات  اورجنوبی افریقا شامل ہیں جبکہ بلیک لسٹ میں شامل کمپنیوں میں 50 سے زائد چینی کمپنیاں ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق امریکی پابندی کی زد میں آنے والی کمپنیوں میں 19 پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اور ایران کی 4، 4 کمپنیوں پربھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
پابندی کا شکار کمپنیوں میں چین کی معروف کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا سروس فراہم کرنے والی کمپنی انسپرگروپ کی 6 ذیلی کمپنیاں بھی شامل ہیں، انسپرگروپ کی کمپنیوں کے علاوہ بھی دیگر چینی اداروں کو برآمداتی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ انسپر گروپ کی یہ کمپنیاں چینی فوج کے لیے سُپر کمپیوٹرز کی تیاری میں معاونت فراہم کر رہی تھیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق انسپرگروپ کو پہلے ہی 2023 میں اس فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے، پابندیوں کا مقصد چین کی ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ، کوانٹم ٹیکنالوجیز، جدید مصنوعی ذہانت اور ہائپرسونک ہتھیاروں کے پروگرام کی ترقی کو روکنا ہے۔
امریکی وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ حریف ممالک کو امریکی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرکے فوجی طاقت بڑھانے اور امریکی شہریوں کوخطرے میں ڈالنےکی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکا میں چینی سفارت خانے نے امریکی اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا فوجی امورکوبہانہ بناکر تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاملات کو سیاسی رنگ دینے اور انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکا ایران کے ڈرونز اور دیگر دفاعی سامان کے حصول کو روکنے اور  ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں کی ترقی کو محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہا ہے۔
خیال رہےکہ امریکی محکمہ تجارت کسی بھی کمپنی کو قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کےخدشات کی بنیاد پر اینٹیٹی لسٹ میں شامل کرسکتا ہے، اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو امریکی مصنوعات خریدنے کے لیے خصوصی لائسنس درکار ہوتا ہے جو عام طور پر جاری نہیں کیے جاتے
ان پابندیوں کا بظاہر مقصد بیجنگ کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور جدید کمپیوٹنگ کی صلاحیتوں کو محدود کرنے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کیایکسپورٹ محدود کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے یہی نہیں چین کی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو کم کرنے پر کام کی رفتار دو گنا کردیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی نے 80 کمپنیوں کو ایکسپورٹ بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے، جن میں سے 50 سے زیادہ کا تعلق چین سے ہے،جبکہ پاکستان کی 19 اور ایران ‘ متحدہ عرب امارات کی بھی چار چار کمپنیاں شامل ہیں امریکی وزارت تجارت نے امریکی کمپنیوں کو حکومتی اجازت نامے کے بغیر ان کمپنیوں کو سپلائی سے روک دیا ہے۔
امریکی بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی نے کہا کہ ان کمپنیوں کو مبینہ طور پر امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے بلیک لسٹ کیا گیا، جو بیجنگ کی ایکساسکیل کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی تک رسائی کو مزید محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے، جو بہت تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ کوانٹم ٹیکنالوجیز کے ساتھ بڑی مقدار میں ڈیٹا کو پروسیس کرسکتا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ درجنوں چینی اداروں کو فوجی مقاصد کے لیے جدید مصنوعی ذہانت، سپر کمپیوٹرز اور ہائی پرفارمنس اے آئی چپس تیار کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر نشانہ بنایا گیا، 2 کمپنیاں ہواوے اور اس سے وابستہ چپ بنانے والی کمپنی ہائی سلیکون، پابندیوں کا شکار اداروں کو میٹریل سپلائی کر رہی تھیں۔
امریکی حکام نے چین کی فوجی جدیدکاری کی حمایت کے لیے امریکی ساختہ اشیا حاصل کرنے پر 27 چینی اداروں کو بلیک لسٹ کیا، اور چین کی کوانٹم ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے میں مدد کرنے کے لیے 7 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا۔
پابندی کی فہرست میں چینی کلاؤڈ کمپیوٹنگ فرم انسپر گروپ کے 6 ماتحت ادارے بھی شامل ہیں، جنہیں جو بائیڈن انتظامیہ نے 2023 میں بلیک لسٹ کیا تھا۔
چین کی وزارت خارجہ نے برآمدی پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے، اور امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کو عام کرنے سے باز رہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سینئر لیکچرار اور مصنف ایلکس کیپری کا کہنا ہے کہ بلیک لسٹ تازہ ترین اضافہ تیسرے ممالک، ٹرانزٹ پوائنٹس اور ثالثوں کے لیے بڑھتا ہوا جال ہے۔
انہوں نے پابندیوں کے باوجود چینی کمپنیوں کو امریکی ٹیکنالوجیز تک رسائی کی اجازت دینے والی خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چینی کمپنیاں بعض تیسرے فریقوں کے ذریعے امریکی اسٹریٹجک دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

امریکی حکام این ویڈیا کے ذریعہ تیار کردہ جدید سیمی کنڈکٹر کی اسمگلنگ کے مقصد سے ٹریکنگ اور ٹریسنگ آپریشنز کو تیز کرنا جاری رکھیں گے۔

برآمدات پر عائد پابندیاں ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے خلاف محصولات میں اضافے کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

چینی اے آئی اسٹارٹ اپ ’ڈیپ سیک‘ کے تیزی سے عروج نے چین میں اوپن سورس کم لاگت والے اے آئی ماڈلز کو اپنانے میں اضافہ کیا ہے، جس سے اعلی لاگت، ملکیتی ماڈلز کے ساتھ معروف امریکی حریفوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے چین کے خلاف بڑے پیمانے پر برآمدی کنٹرول نافذ کیے تھے، جس میں سیمی کنڈکٹر سے لیکر سپر کمپیوٹرز تک ہر چیز کو نام نہاد ’اسمال یارڈ، ہائی فینس‘ پالیسی کے تحت شامل کیا گیا، اس نقطہ نظر کا مقصد دیگر علاقوں میں معمول کے معاشی تبادلے کو برقرار رکھتے ہوئے اہم فوجی صلاحیت کے ساتھ چھوٹی تعداد میں ٹیکنالوجیز پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔

کامرس فار انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی کے انڈر سیکریٹری جیفری آئی کیسلر نے کہا کہ امریکی ایجنسی ایک واضح اور شاندار پیغام بھیج رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.