1947 میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ اس مخالفت کی بنیادی وجہ ’’ڈیورنڈ لائن’’ تھی، جو 1893 میں برطانوی حکومت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بین الاقوامی سرحد قرار پائی تھی۔پاکستان کے قیام کے بعد سے افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور ’’پشتونستان‘‘ کے نام پر پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقوں پر نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ ان علاقوں میں مداخلت کرتے ہوئے متعدد پشتونوں کو ریاست کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ، افغانستان نے ان عناصر کو ہر ممکن امداد فراہم کی جو پاکستان کی ریاست کے مخالف تھے۔ یہی تنازعات ابتدا سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث بنے اور بدقسمتی سے آج تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔1970 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ 1973 میں سردار داؤد کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات میں تلخی بڑھ گئی۔اس حوالے سے اب حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں ،افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی ،سرحد پار سے دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوئے اور تخریب کاری بڑھتی چلی گئی اس حوالے سے اب نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نےکہا ہےکہ پاکستان کو کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سامنا ہے، پرامن اور مستحکم افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گلوبل گورننس کے عنوان سے اجلاس سےخطاب میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے، آج کے بحرانوں نے یواین چارٹرکے تحت قائم ورلڈ آرڈر کوبھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے، پاکستان دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ضروری اقدام کر رہا ہے، دہشت گردی پوری دینا کے لیے بڑا چیلنج ہے، مسئلہ کشمیرکا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتے ہیں۔اس سے قبل نیویارک میں او آئی سی گروپ میٹنگ سے خطاب کے دوران اسحاق ڈار نےکہا کہ افغانستان سے مسلسل دراندازی ہو رہی ہے، افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ ایل او سی عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر قبضےکی دھمکیاں دی جارہی ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔قبل ازیں جب افغانستان سے دہشتگردی کی وارداتوں پر پاکستان نے افغانستان سے احتجاج کیا تھااورحکومت پاکستان کی جانب سے سرحد پار افغانستان کے اندر کارروائیوں کا عندیہ دیے جانے کے بعد ایک جانب جہاں افغانستان کی طالبان حکومت نے اسے ایک غیر دانشمندانہ بیان قرار دیا تھا تو دوسری طرف حکومت کو پاکستان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس حوالے سے پاکستان کا موقف رہاہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ آپریشن عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے بعد میں ماضی میں ہونے والی ایسی کارروائیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ادھر کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرحد پار کارروائیوں کی صورت میں پاکستان کے سنگین خطرات بھی ہیں جن میں سے ایک سنگین صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ اگر پاکستان کچھ عرصے کے لیے اس طرح افغانستان میں آپریشن کرتا ہے تو پھر افغان طالبان پاکستان کے خلاف حملے شروع کر دیں گے۔ان حالات میں پاک فوج نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اسکے بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں ،سرحد پار سے دہشتگردی روکنے کے لئے سرحد کی کڑی نگرانی ہورہی ہے اور ملک سے ہر طرح کی دہشتگردی کے خاتمے کےلئے تیز رفتار آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں ۔