ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

39


کہتے ہیں کہ زخم نہیں بھرتا کیونکہ زخم کوئی دروازہ نہیں جسے بند کر لیا جائے یہ مندمل تو ہوسکتا ہے
مگر اس کا نشان رہ جاتا ہے۔
آج پاکستانی قوم کو لگے بے شمار زخموں پر مرہم لگانے کا وقت ہے پچھلے سالوں میں بہت ہو چکا ہے
بہت کچھ گنوا چکے ہیں دنیا بڑی تیزی سے آگے جا چکی اور ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں
ان فاصلوں کو طے کرنے کے لیے ماضی کو بھول کر مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں
ماضی کے تلخ تجربوں سے سیکھیں اوت تعمیر نو کا آغاز کریں
جو صرف اور صرف ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام سے ہی ممکن ہو سکتا ہے
اور یہ استحکام ہماری برداشت اور قومی یلجہتی سے ہی جڑا ہوا ہے ۔
میں نے بہت پہلے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ دنیا کے عظیم فلاسفر سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا
اور وہ تھا “برداشت” یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سنتے تھے
اور بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا
اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا
یا دھمکی دیتا تھا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا اس طالب علم کو درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا
سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے
سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ بھی کم ہو جاتا ہے اور
جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس لیے میرے خیال میں ہر معاشرے کی تعمیر و ترقی کا راز ہمیشہ برداشت اور
تحمل ہی میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔
آج ہمارے ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل اور گہماگہمی عروج پر ہے
الیکشن کے بعد نئی حکومتیں وجود میں آرہی ہیں توقع کی جا رہی تھی
اس مرتبہ یہ سیاسی آغاز اچھی روایات سے ہو گا
مگر پہلے ہی دن گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں حلف بربراری کی تقریب میں
جو ہنگا مہ آرائی کا منظر نظر آیا ہےاور پہلے ہی دن اپوزیشن نمائندگان کی پکڑ دھکڑ کی کاروائیاں
ایسا تو پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا اسمبلی کے اندر نعروں اور الزامات کا
شور اور باہر لاتعداد پولیس فورس کی موجودگی کے مناظر جمہوری رویہ نہیں کہلا سکتے
جو شاید آئندہ بھی دوسری اسمبلیوں میں اس سے بھی بڑھ کر نظر آسکتا ہے
کیونکہ سندھ میں بھی دھرنوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔
پارلیمان کے اندر اور باہر کے پر تشدد مناظر دن بدن پہلے سے بہت زیادہ دردناک اور
خوفناک ہوتے چلے جارہے ہیں عدم برداشت کا یہ بڑھتا ہوا رجحان ایک انجانے خطرے کا احساس دلا رہا ہے ۔
پارلیمان میں ہمارے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ ہم پچیس کروڑ عوام کے لیے
قانون سازی کرنے کے لیے ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر وہاں پہنچتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے
جیسے پاکستانی سیاست اب تنقید اور اصلاح کی بجاے ذاتی اختلاف اور
نفرت کی طرف بڑھ رہی ہے جو ہمارے ملک اور قوم کے لیے ایک زہر قاتل ہے ۔
ٹی وی ٹاک شوز کی میں سیاستدانوں کی گفتگو میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے
اور ایک دوسرے سے غصے اور نفرت کا اظہار اس بات کی غمازی اور اشارہ کرتا ہے کہ
کروڑں عوام کے ساتھ ساتھ ان کے منتخب نمائندوں اور سیاستدانوں میں بھی
عدم برداشت کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔
شاید یہ سب ایک غیرمستحکم سیاسی صورتحال کی باعث ہو رہا ہے
یا پھر ہم ایک ایسے قومی اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں
جہاں تباہی اور انتشار کے سوا ے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جو بھی ہو اس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگی کا بھی معمول بنتے جا رہے ہیں
کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم زوال پذیر ہونے لگتی ہے تو اس میں عدم برداشت کا رجحان
اور اس کے رویے تہذ یب و شائستگی ،اخلاق وکردار اور صبر وعمل سے عاری ہونے لگتے ہیں ۔
لہجوں اور چہروں سے کرختگی اور غصہ کے تاثرات نمائیاں ہوکر تعمیری سوچ کے بجائے
غیر تعمیری سرگرمیاں ان کا محور بن جاتی ہیں
اور جس سے ہماری قوم اور اس کی نئی نسل اس بڑھتی ہوئی اناء پرستی ،غرور،لڑائی جھگڑے ،
حاصل لا حاصل کی کی بحث و مباحثہ ،حسد ،کینہ و بغض سے بری طرح متاثر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔
وطن عزیز میں باہمی احترام ،رواداری ،صلح جوئی اور امن وآشتی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے
اور ہمارا معاشرہ تعصب ،نفرت ،انتقام ،غصہ کی باعث عدم برداشت سے بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔
ان تلخیوں کے اثرات اب ہماری عام معاشرتی زندگی تک بھی پہنچنے لگے ہیں اور
معاشرے کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی بھی اس سے متاثر ہورہا ہے ۔
معاملہ اب پارلیمان ،جلسوں ،بیانات ،نعروں اور ٹاک شوز سے نکل کر
شہروں ،قصبوں،گاؤں ،محلوں سے نکل کر گلیوں اورگھروں تک پہنچ رہا ہے ۔
سیاست سے ہٹ کر روزمرہ زندگی کے معاملات میں بھی عدم برداشت دیکھنے میں آرہی ہے
لوگوں کی گفتگو کی تلخی بڑھتی جارہی ہے معمولی معمولی بات پر آگ بگولہ ہونا ،جھگڑے اور تلخ کلامی عام ہوتی جارہی ہے ۔
آپس میں گفتگو کا میعار گر رہا ہے جو ہماری قوم کو ایک دوسرے سے بد ظن کررہا ہے جس سے نوجوان طبقہ ہی نہیں چھوٹے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور اس سے ان کی تعلیمی اور سماجی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں ۔
ہم بحیثیت قوم لا شعوری طور پر کس جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں ؟
کیا اس بند گلی سے کوئی راستہ نکل سکتا ہے ؟کوئی روشنی کی کرن اس تاریک گلی کو روشن کر سکتی ہے؟
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ بھر جاتا ہے مگر زبان کا ز خم بال کی مانند نظر آتا رہتا ہے ۔
ہمیں آج ایک ایسی شعوری بیداری کی ضرورت ہے جو ان بڑھتی ہوئی نفرتوں کا راستہ روک سکے جو ہمیں ترقی کی اخلاقی بلندیوں کی جانب گامزن کر سکے
کیونکہ نفرتیں ہمیشہ بد کلامی کو جنم دیتی ہیں اور بد کلامی ایک معاشرتی ناسور بن جاتی ہے ۔کہتے ہیں شعور کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جہاں انسان بدکلامی کا جواب بدکلامی سے دیتا ہے
اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے ۔شعور کی اس سے بہتر سطح وہ ہے جہاں انسان بدکلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور بدکلامی کرنے والے کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔
شعور کی سب سے اعلیٰ اور بلند سطح وہ ہے جہاں انسان نہ صرف اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے اور برے اخلاق کا جواب اپنے بہترین اخلاق سے دیتا ہے ۔
آج ہمارے معاشرے اور قوم کو شعور کی بلند سطح درکار ہے جو بد ترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کر دیتی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرے اور ماحول میں اچھا اور بہترین اخلاق پروان چڑھ سکتا ہے ۔
کہتے ہیں افراد کردار سے قومیں تشکیل پاتی ہیں تو آئیے اور اس کی ابتدا اپنی ذات سے شروع کریں
کیونکہ انفرادی رویہ ہی بہت سے مثبت قومی رویوں کو جنم دیتا ہے
صبر تحمل اور بردباری و برداشت کو عادت بنا لیں اور بے جا بحث مباحثہ سے اجتناب برتیں
دوسروں کے پر اپنی راےُ اور سوچ مسلط کر نے سے پر ہیز کریں
ان کے مینڈیٹ کا ہی نہیں بلکہ ان کے نظریات کا بھی احترام کریں ۔
یہی آج وقت کا تقاضہ ہے اور یہی اسلامی روداری اور بھائی چارے ،کا حکم ہے جو اسلامی معاشرت کے لیے ہمارے پیغمبرؐ نے دیا تھا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
اسلام کے زریں اصلوں پر کے مطابق ہماری انفرادی و اجتماعی سوچ کی تبدیلی
اور حکومتی مثبت پالیسی کا تسلسل ہی ہمیں اور ہمارے معاشرے کو اس بحران سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے
کیونکہ خوبصورت پھول اور ذائقہ دار پھل بادلوں کے گرجنے سے نہیں
ان کے برسنے سے پیدا ہوتے ہیں اور نفرتوں کی آگ میں تو کبھی پھول نہیں کھلتے پھول کو تو کھلنے کے لیے محبتوں کی شبنم درکار ہوتی ہے
اور محبتوں کی فصل کبھی نفرتوں کی آبیاری سے پروان نہیں چڑھ سکتی ۔
ہمیں یہ اندھیروں کا سفر جاری نہیں رکھنا ہے
خدارا ! نفرتوں کے اس ماحول کو بدلنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی مثبت سوچ اپنا ئیں
اور ہر ہر موقع پر اپنا بہترین اور مثبت کردار ادا کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلیں
یہی ہماری قومی ترقی کا واحد راستہ ہے اور جو یقینا”ہماری آنے والی نوجوان نسل ،ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔

احساس کے انداز
تحریر :۔ جاویدایاز خان

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-19-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.