ادب اور شاعری انسانی معاشرت کی گہری عکاسی کرتے ہیں، لیکن ادب کے اس روشن چہرے پر جب گروپ بندی، سطحیت، اور تجارتی مفادات کے دھبے نظر آنے لگیں، تو یہ ایک سنجیدہ سوال پیدا کرتا ہے: کیا ادب اپنی تخلیقی بنیادوں سے دور ہو رہا ہے؟
صفدر ہمدانی کی حالیہ فیس بک پوسٹ، جس میں انہوں نے اپنی غیر مطبوعہ شاعری کو فروخت کے لیے پیش کیا، نے مجھے گہرے افسوس اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔ یہ پوسٹ محض ایک اعلان نہیں، بلکہ اس میں ہمارے معاشرتی اور ادبی ماحول کی تلخ حقیقتوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔صفدر ہمدانی کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ پچھلے ساٹھ برس سے اردو ادب کے لیے خاموشی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری، نثر، اور مرثیہ نگاری اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تخلیق کو اپنے دل کی آواز سمجھا اور کبھی کسی طمع یا ستائش کی تمنا نہیں کی۔ لیکن ان کا یہ قدم، کہ وہ اپنی غیر مطبوعہ شاعری کو فروخت کے لیے پیش کر رہے ہیں، ایک ایسا لمحہ ہے جو اردو ادب کے موجودہ منظرنامے پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ادبی ماحول میں تخلیق کی جگہ تجارت کا غلبہ ہو گیا ہے۔ادب کا اصل مقصد انسانی جذبات، سماجی مسائل، اور تخلیقی اظہار کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا ادبی ماحول ان مقاصد سے بہت دور جا چکا ہے۔ صفدر ہمدانی نے اپنی پوسٹ میں جن حقائق کا ذکر کیا، وہ محض ان کا ذاتی تجربہ نہیں بلکہ ہر سنجیدہ تخلیق کار کی مشترکہ شکایت ہے۔مشاعرے، جو کبھی شعری ثقافت اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ تھے، آج محض تجارتی تقاریب بن چکے ہیں۔ ان میں شرکت کا انحصار شاعری کے معیار پر نہیں بلکہ ذاتی تعلقات اور مالی مفادات پر ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں صفدر ہمدانی جیسے سنجیدہ تخلیق کاروں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔صفدر ہمدانی نے اردو کے فروغ کے نام پر ہونے والی عالمی اردو کانفرنسوں کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کانفرنسوں پر بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے، لیکن ان کے نتائج نہایت مایوس کن ہیں۔ اردو زبان کو قومی سطح پر نافذ کرنے کا خواب آج بھی تشنہ ہے، اور ان کانفرنسوں نے اس سلسلے میں کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا۔
بیرون ملک منعقد ہونے والے مشاعرے اور کانفرنسیں ایک الگ داستان ہیں۔ یہ تقاریب زیادہ تر مخصوص افراد کے لیے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں، جبکہ حقیقی تخلیق کار ان سے باہر ہی رہتے ہیں۔صفدر ہمدانی کی مرثیہ نگاری پچاس برسوں پر محیط ہے، لیکن اس صنف کے ساتھ ہونے والے سلوک نے انہیں بھی مایوس کیا ہے۔ مرثیہ، جو کبھی معاشرتی مسائل اور انسانی جذبات کا آئینہ دار تھا، آج رسمی تقاریب تک محدود ہو چکا ہے۔ یہ ادب کی وہ صنف ہے جسے ہمارے تحفظ کی اشد ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہونے والے رویے نے اس کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔غیر مطبوعہ شاعری برائے فروخت: ادب کے زوال کی علامت لگ رہی ہے۔صفدر ہمدانی کا اپنی غیر مطبوعہ شاعری کو فروخت کے لیے پیش کرنا، ایک جانب ان کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے، اور دوسری جانب یہ ادب کے زوال کی طرف اشارہ بھی ہے۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب غیر مطبوعہ اشعار، جو ان کے تخلیقی سفر کی گواہی دیتے ہیں، ایسے قارئین اور شعری محققین کے منتظر ہیں جو ان کی قدر کریں۔یہ اقدام شاید روایتی اصولوں سے ہٹ کر ہو، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کا ادبی ماحول تخلیقی افراد کے لیے اتنا سازگار نہیں رہا کہ وہ اپنی تخلیقات کو معیاری پلیٹ فارمز تک پہنچا سکیں۔ادب کے لیے آگے کا راستہ دیکھنا چاہیے،صفدر ہمدانی کے اعلان کو ایک موقع کے طور پر لینا چاہیے، تاکہ ہم اپنے ادبی ماحول کا جائزہ لے سکیں اور اس میں بہتری کے لیے اقدامات کر سکیں۔ ہمیں ادب کو گروپ بندی اور سطحیت سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ تخلیق کاروں کو وہ مقام دینا ہوگا جو ان کا حق ہے، اور مشاعروں و کانفرنسوں کو ادب کے اصل مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔
صفدر ہمدانی کی آواز، ہم سب کی پکار ہونی چاہیے۔
صفدر ہمدانی کی پوسٹ ایک ایسی پکار ہے جسے سننے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ان کی ذاتی کہانی نہیں، بلکہ ہر اس تخلیق کار کا درد ہے جو ادب سے محبت کرتا ہے۔ ہمیں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ادب کے اصل مقاصد کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔اردو ادب ایک قیمتی اثاثہ ہے، اور صفدر ہمدانی جیسے افراد اس کے اصل محافظ ہیں۔ ہمیں ان کی آواز کو سننا اور اس کا احترام کرنا ہوگا، تاکہ ادب اپنی اصل روح کے ساتھ اگلی نسلوں تک پہنچ سکے۔
صفدر ہمدانی کی تحریر اُس پکار کی ترجمان ہے جو ادب اور تخلیق کے حقیقی معنوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر مطبوعہ شاعری کو فروخت کے لیے پیش کیا ہے تاکہ وہ لوگ اسے اپنائیں جو اس کی قدر کریں اور اسے آگے بڑھائیں۔یہ قدم شاید روایتی اصولوں سے ہٹ کر ہو، لیکن تخلیق اور ادب کے تحفظ کے لیے اس سے بہتر راستہ شاید نہ ہو۔ میں ان تمام افراد کو دعوت دیتا ہوں جو ادب کے حقیقی علمبردار ہیں کہ آئیں اور اس مشن میں دل برداشتہ صفدر ہمدانی صاحب ساتھ دیں۔
تو نے کمال کام یہ نادان کر دیا
گھر میں مجھے خود اپنا ہی مہمان کر دیا
بس اک ذرا سی بھول ہوئی اختلاف کی
بے دخل کر کے تخت سے دربان کر دیا
اے بد نصیب میرا یقیں مجھ سے چھین کر
تجھ کو یہ زعم ہے مرا نقصان کر دیا
بزدل تھا میں جو کر نہ سکا خود یہ انتظام
صد شکر تم نے موت کا سامان کر دیا
ہائے لگا کے آگ چراغاں کے شوق میں
حاکم نے سارے شہر کو ویران کر دیا
قد سے مرا سوال بڑا تھا سو اس لیے
محسن کو اپنے داخل زندان کر دیا
خیرات دے کے گزرا ہے جو میرے