کہتے ہیں کہ اپنا گھر ،محلہ ،گاوں ،شہر یا وطن چھوڑنا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔پھر بھی پوری عمر کئی ایسی ہجرتوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔جن میں اکثر من چاہی نہیں بلکہ مجبورا” ہوتی ہیں ۔ان میں زیادہ تر تلاش معاش ہی انسان کو دربد ر کرتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب اپنا گھر اپنی زمین اپنا وطن اس قدر عزیز ہوتا ہے تو کوئی کیوں انہیں چھوڑ کر جاتا ہے ؟ اور چھوڑ جانے کے لیے کیوں ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس کے بارۓ میں اسےپیش آنے والے خطرات کا بڑی اچھی طرح ادراک بھی ہو تا ہے ۔اپنی جان کی قیمت پر اپنے مستقبل کی تلاش کہاں کی عقلمندی ہے ؟ یہ اور ایسے بہت سے سوال ہمارے ذہنوں میں کلبلاتے رہتے ہیں لیکن پوچھے اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے جواب بھی ہم جانتے ہیں ۔جی ہاں روزگار اور اچھا لائف سٹائل ہمیں اپنی جانب کھینچتا ہے ۔خاندان یا گھر کا ایک فرد باہر چلا جاۓ تو ہمارا آئیڈل بن جاتا ہے ۔اپنی جان پر کھیل کر باہر جانے اور دولت مند بننے کی خواہش اور دوڑ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انسانی اسمگلرز کی چاندی ہو گئی ہے ۔پاکستان ،ایران ، ترکی اور کئی ممالک میں یہ اسمگلرز ایک بااثر مافیہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ہر سال اس طرح کی ناجائز ہجرت کرنے والے اور اس ہجرت دوران مرنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ یہ مافیہ مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔
یونان کے سمندر میں ایک اور کشتی ڈ وب گئی ۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے غیر قانونی تارکیں وطن کے تین کشتیوں پر سوار ہوکر یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران یونان کے جزیرے کریٹ کے جنوب میں گذشتہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میں پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں کئی پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے ۔جس کی باعث بےشمار پاکستانی گھرانوں میں صف ماتم بچھ چکی ہے ۔بے شمار مائیں لاپتہ افراد اور اپنے بچوں کے بارے میں پریشان حال نظر آتی ہیں۔بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کی واپسی کے جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ یونان میں موجود سفارتخانے کے حکام کے مطابق سنتالیس پاکستانیوں کو ریسکیو کر لیا گیا ہے ۔حکام کے مطابق اگر چہ ڈوبنے والے اور لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہو سکا تاہم یہ تعداد درجنوں میں ہو سکتی ہے کیونکہ ان کشتیوں پر بڑی تعداد پاکستانیوں کی بتائی گئی ہے جن لاپتہ افراد کے بچنے کی امیدیں اب ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ڈوبنے والے افراد میں تیرہ سالہ نابالغ محمد عابد بھی شامل ہے جو یورپ کے خواب سجاۓ سمندری لہروں کی نذر ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ سترہ اور اٹھارہ سال کے چار اور انیس سال کے تین لڑکوں کو بھی ریسکیو کیا گیا ہے ۔کشتی ڈوبنے کا یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے پچھلے سال بھی یونان کے اسی علاقے میں غیر قانونی تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے سے تقریبا” تین سو پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں ۔ کشتی حادثہ سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ بے رحم انسانی اسمگلرز نے اب طریقہ کار بدل دیا ہے اور اب کوسٹ گارڈ ،ریڈارز سینسر ز سے بچنے کے لیے بڑے ٹرالر یا کشتیوں کی بجاۓ چھوٹی چھوٹی کشتیوں کا ستعمال کرنے لگے ہیں جس کا سفر زیادہ خطرنا ک اور جان لیوا ہوتا ہے ۔جس کے بعد ملک بھر میں ایسے ایجنٹس اور انسانی اسمگلرز کے خلاف بھر پور کاروائی کا اعلان سامنے آیا تھا ۔وزیر اعظم پاکستان کو بریفنگ کے دوران اس قسم کی انسانی اسمگلنگ کے اب تک بےشمار سانحے اور کیسز عدالتوں تک پہنچ چکے ہیں اور چار ملزمان سزا بھی پا چکے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات اور سانحات کا بار بار رونما ہونا پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ بن چکا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے متعلقہ حکام کو پھر تاکید کی ہے کہ اس ضمن میں بین الااقوامی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا جاۓ تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے ۔ان میں سے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق وسطی پنجاب سے بتایا جارہا ہے جو مالی طور پر پاکستان کے اچھے علاقوں میں شمار ہوتا ہے ۔حیرت ہے کہ اس طرھ کے بار بار سانحوں کے باوجود لوگ پھرپنے بیٹوں اور بھائیوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے پر کیسے تیار ہو جاتے ہیں ؟والدین اپنی جمع پونجی اور زرعی رقبے تک بیچ کر اپنے پیارے بچوں کو یورپ بھجنے پر کیسے راضی ہو جاتے ہیں ؟ اب تک اس طرح کی کوشش میں ناجانے کتنی ہی ماوں کے لخت جگر ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوچکے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے
یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے ایسے سانحے اور حادثات بے شمار لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کر چکے ہیں ۔اپنے وطن سے غیر قانونی طور پر ہجرت کرکےکسی دوسرے ملک یا وطن جابسنے والے لوگ غیر قانونی تارکین وطن کہلاتے ہیں ۔ان کی اپنے وطن یا ملک سے ہجرت کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ وجوہات مجبوا” وطن چھوڑنے پر آمادہ کردیتی ہیں جن میں سیاسی پناہ یا ملکی جنگی حالات بھی شامل ہوتے ہیں ۔اور کچھ جان بوجھ کر روزگار اور اچھی زندگی کی خواہشات کے باعث کی جاتی ہیں کیونکہ قانونی طور وطن سے جانا بڑا مشکل اور مہنگا ہوتا ہے اس لیے یہ غیر قانونی ذرائع سے باہر جانا بہتر سمجھتے ہیں ۔پاکستان سے ساٹھ کی دہائی سے ہی اپنا ذریعہ معاش بہتر بنانے کے خیال سے بڑی تعداد میں لوگ ترک وطن کرکے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونا شروع ہوۓ ۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی لٹا کر اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر نہایت ہی مشکل ترین اور مصائب سے بھرپور سفر کے بعد بھی ایسے کچھ فیصد لوگ لگاتار یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور نئے افراد کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں ۔یہ اپنے ماں باپ ،بہن بھائی ،رشتہ دار اور اپنی مٹی اور زمین کیوں غیر قانونی طور پر چھوڑنا چاہتے ہیں ؟ اور کیسے والدین ہیں جو اپنے لخت جگر اس پرخطر سفر پر روانہ کر دیتے ہیںؓ ؟ یہ بڑا دلخراش سوال ہے ۔یہ رسک لینے والے نوجوان صرف ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہی نہیں ہوتے بلکہ ان میں بڑے بڑے ہنر مند اور پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہوتے ہیں یہاں تک کہ ڈاکٹر اور انجینیرز بھی ان کا حصہ بن رہے ہیں ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ قانونی اور غیر قانونی طور ہمارا برین ڈرین ہو رہا ہے ۔ہمارا ہنر مند ملک سے نکل رہا ہے ۔ہمارا محنت کش ملک چھوڑ رہا ہے ۔پاسپورٹ آفس کے باہر لگا رش اور ویزہ کے لیے لگی طویل قطاریں اس کی بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ہمارے نوجوان کسی نہ کسی بھی طریقے سے ملک چھوڑ رہےہیں یا پھر چھوڑنے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں جسکی واحد وجہ اپنے وطن اور ملک میں اچھے روزگار اور اچھے مستقبل سے مایوسی ہے ۔بڑی بڑی ڈگریاں لیے بےےروزگاری کے چنگل میں پھنسےان نوجوانوں کو باہر جانے کے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔موجودہ دور کے نوجوان اپنے بزرگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہنر مند اور تعلیمیافتہ ہیں اور دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ۔تاہم حیران کن یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کے مطابق ملازمتیں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی پلاننگ دکھائی دیتی ہے جس سے انہیں روزگار کی امید نظر آۓ جس کی وجہ سے ان میں بیرون ملک ہجرت اور منتقلی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔جبکہ ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے نوجوان بےروزگاری ،بےبسی اور مایوسی کے جذبات کی باعث باہر جانے پر مجبور ہیں ۔اس کے علاوہ تعلیم کے لیے باہر جانے والے اور کھلاڑی بھی وہیں یا تو شادی کرکے یا پھر ملازمت حاصل کرکے واپس نہیں آتے یا پھر غیر قانونی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے لیے جانے والے افراد میں سے اسی فیصد لوگ تعلیم سے زیادہ وہاں سیٹ ہونا ضروری سمجھتے ہیں ۔یوں پاکستانی برین بڑی تیزی سے ڈرین ہو رہا ہے ۔ یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے جیسے ممالک جہاں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مجموعی آبادی کا ستر فیصد طبقہ نوجوانوں پر مشتمل ہے یہا ں آبادی کے اضافے کی نسبت سے نوجوان کے لیے نوکریوں اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئے جارہے ۔پاکستان کی گذشتہ چند برسوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال نے ان میں بے یقینی اور مایوسی بڑھا دی ہے ۔ دوسری جانب دنیا کے بہت سے ملکوں کے لوگ جو اچھی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک چلے گئے تھے اب واپس وطن کو لوٹ رہے ہیں یا پھر اپنی واپسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اپنے برین ڈرین کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ؟ آخر کب تک غریبوں کا سرمایہ یہ انسانی اسمگلر ہڑپ کرتے رہیں گے ؟ دراصل اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں جو خواب خریدنا چاہتے ہیں یا پھر وہ انسانی اسمگلرز جو خواب فروخت کر رہے ہیں ۔خواب خریدنے اور بیچنے والوں سے آہنی ہاتھوں اور سخت ترین سزاوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ذمہ داری حکومت وقت کی ہے ۔