اک صدائے کن فکان اس کے سوا کچھ بھی نہیں
دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب
( دوسرا حصہ )
نباتات ، حشرات اور حیوانات سب ایک پری ڈیفائنڈ تغیر سے آ غاز سے انجام تک کا سفر طہ کرتے ہیں ، مگر انسان واحد ایسی الگ تخلیق ہے جو سوچتی ہے اور اپنے ارادوں میں اتنی خود مختار ہے کہ وہ پری ڈیفائنڈ تغیر کے جبر سے آزاد ہو جاتی ہے ، مثلاً وہ کسی کاز کے لیے اپنی جان بھی دے سکتی ہے ۔ جیسے وطن کے لیے شہادت ۔۔ یہاں تک کہ انسان خودکشی بھی کر سکتا ہے ۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ،اردو ادب سے شکیب جلالی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہوں نے صرف 33 سال کی عمر میں سرگودھا ایکسپریس کے سامنے آ کر خود کشی کر لی تھی ۔
شکیب جلالی کی شاعری میں imagery کے جو نمونے ملتے ہیں جس کثرت سے ملتے ہیں اردو شکیب جلالی کی شاعری میں imagery کے جو نمونے ملتے ہیں اور جس کثرت سے ملتے ہیں اردو شاعری میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ۔ چند نمونے پیش ہیں ۔
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں
مری گرفت میں آ کر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں
آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
اتنا متوازن شخص خود کشی پر کیسے آمادہ ہوا ۔ کہتے ہیں
شکیب کے باپ کی ذہنی بیماری کے باعث شکیب کی ماں نے ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کرلی تھی اور 10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ منظر دیکھا تھا ۔ مگر 33 سال کی عمر میں جب وہ ایک کامیاب شخص اور شاعر تھا وہ اس نفسیاتی مسئلے کے سامنے مغلوب ہو کر خود کشی پر آمادہ ہوا۔
ڈیپریسو خیالات کی وجہ دماغ کے نیور و ٹرانسمٹرز جیسے کے سیروٹونین ، ڈوپامین اور گابا وغیرہ میں کمی آ جاتی ہے اور وہ شخص ایسے انتہائی اقدام اٹھانے کی طرف چلا جاتا پے۔
یہاں دونوں طرح کے امکانات موجود ہوتے ہیں ۔ آ پ کے depressive خیالات کی وجہ سے نیورو ٹرانسمٹرز کم ہو جائیں یا پھر کسی مادی بیماری کی وجہ سے پہلے ان ٹرانسمیٹرز کی concentration دماغ میں کم ہو جائے اور وہ شخص depression میں چلا جائے۔
یہاں سے مادے اور روح کے اس relationship کا پتہ ملتا ہے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں اور ہم اس منزل فکر تک آ چکے ہیں کہ مادے سے سوچ تک کا سفر اتفاقاً ممکن نہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہومیو پیتھی مادے اور روح کے تعلق پر بحث کرتی ہے مثلا ایک ہومیو پیتھ یہ کہے گا اگر شکیب کو Aurum Met کا استعمال کروایا جاتا تو شاید وہ suicidal thoughts سے نکل پاتا ۔
اسی طرح ہومیو پیتھی کہتی ہے ایک عورت جو introvert ہے اور کوئی راز اپنے دل میں دبا کر رکھے ہوئے ہے اور کسی سے شئیر نہیں کرنا چاہتی مثلاً جب وہ کالج میں پڑھتی تھی تو اسے کسی نے محبت میں دھوکا دیا اور وقت آ گے گزر گیا ۔ اب وہ اپنی فیملی بنا چکی ہے مگر اس راز کو دبا کر رکھنے کی وجہ سے وہ introvert بھی ہو گئی ہے اور ڈیپریشن کی مریضہ بھی ہے تو اس کی وجہ اس کے برین سیلز میں سوڈیم کلورائیڈ ( عام نمک) کا balance آوٹ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے نیورو ٹرانسمٹرز کم ہو گئے ہیں۔ ایک اچھا ہومیو پیتھ اسے ہومیو پیتھک ریمڈی Natrum Mur (نمک) استمال کروائے گا اور جب اس کا سوڈیم کلورائیڈ کا بیلنس ٹھیک ہو جائے گا وہ ڈیپریشن سے نکل آئے گی ۔ اس موضوع کو کسی دوسرے مضمون میں تفصیل سے cover کریں گے انشاللہ ۔
یہاں صرف یہی بتانا مقصود تھا مادہ جب سوچنے کے مقام پر پہنچتا ہے ، اس کا یہ ارتقا انسان اور مادے کے علاؤہ کسی تیسری قوت کے بغیر جو ان دونوں سے اعلیٰ و ارفع ہے ممکن نہیں۔
اب ہم اس تیسری قوت کی ایک صفت کی طرف دیکھتے ہیں جس کا پتہ ہمیں سورہ الحدید کی آیت 3 میں ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾
وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ، اورو ہی ہرچیز کو بخوبی جاننے والا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے جو ذات بیک وقت اول بھی ہے اور آخر بھی تو اس کا مطلب ہوا اس ذات میں کوئی تغیر نہیں اور جب کوئی ذات تغیر سے بلند ہے تو وہ وقت سے بھی ماورا ہے کیونکہ وقت تغیر کی پیمائش ہے ۔ اور جو ذات وقت سے ماورا ہے وہ absolute ہے ۔
جب ہم اللہ کے متعلق الہامی کتاب کے حوالے سے سوچتے ہیں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے ،جب ہم اللہ کو سائنس کے حوالے سے سمجھتے ہیں بات تب بھی سمجھ آتی ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کا سفر بغیر تیسری افضل ذات کے ممکن نہیں ۔ ٹھوکر وہاں لگتی ہے جب ہم سائنس کے حوالے سے اس ذات کا احاطہ اپنی عقل سے کرنا چاہتے ہیں ۔ جو کہ اصولی طور پر غیر منطقی ہے کیونکہ کوئی بھی تخلیق اپنے خالق کو نہیں جان سکتی نہ اس کا احاطہ کر سکتی ہے ۔ اس کی سادہ مثال وہی ہے جو پہلے بھی دی جا چکی ہے کہ شاعر کی غزل ، انجنئیر کی بنائی ہوئی گاڑی اور مصور کی پینٹ کی ہوئی تصویر ہے وہ کبھی اپنے خالق کے دروازے پر دستک دے کر یہ نہیں پوچھ سکتی ، مجھے کیوں بنایا ۔
اگر ہم سوچیں تو ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہم الہامی کتاب یعنی قرآن کی طرف لوٹیں اور اس کائنات کے مطعلق جو دعوے وہاں موجود ہیں ان پر غور کریں اور ان نتائج تک پہنچ سکیں ۔
دائروں میں رقص پر مجبور یہ اجسام سب
اک صدائے