نمائشی ولیموں، برسیوں کی دعوتیں
تحریر: خالد غورغشتی
قرآن کریم کی سورہ اعراف آیت نمبر 31 میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ پیو اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
اس آیت کریمہ میں خرچ میں اعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرمایا گیا ہے اور اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل ہی خرچ نہ کرو اور یہ معلوم ہو گویا ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لیے ہل ہی نہیں سکتا، ایسا کرنا تو سببِ ملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں بھی آدمی کو پریشان ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے۔
سنن داؤد کی ایک روایت میں ہے: آدمی کو گناہ گار بنانے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کرے۔
سورہ بنی اسرائیل آیت 27 میں ہے:
بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں غمی و خوشی کے موقع پر بیش بہا فضول خرچ کیا جاتا ہے۔ اکثر ولیموں اور برسیوں کی دعوتوں پر زندگی کی جمع پونجی کو پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے۔ جس کا حاصل وصول سوائے علاقے میں نام وری اور مشہوری کے کچھ نہیں ہوتا ہے۔
دراصل ہماری اکثریت بدلوں کے عوض یہ امور سر انجام دیتی ہے۔ ایک نے دس لاکھ کی دی دوسرا بیس کی دے گا۔ ایک نے پانچ گائیں یا بھینسیں ذبح کی دوسرا دس کرے گا۔ ایک نے چھوٹے شادی ہال میں دی دوسرا بڑے میں دے کر پیسے کی نمائش کرے گا۔ اگر کسی کو منع کرو کہ سادہ سا ولیمہ یا برسی کی تقریب کر کے رشتے داروں، محلے داروں اور دوستوں کو بُلا کر، کر لو تو کہا جاتا ہے کیا ہماری ناک کٹوانی ہے؟ کل سب کی کھائی آج یہ قرض ہر حال میں اُتارنا ہے۔مسلمانوں غیرت کرو، حُکمِ خداوندی آج سے ہی پورا کرنا شروع کر دو۔ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھو اور اب تک جتنی نمازیں قضا ہوئیں ہیں؛ ان کو ایک ایک کر کے ادا کرو۔ جس کام کا حکم تم پر لازمی ہے وہ تو تُم کرنے سے عاجز آ جاتے ہو اور بندوں کو خوش کرنے کے لیے ایک وقت کی روٹی پر لاکھوں روپے لگانے سے کون سی اسلامی سنت ادا ہو جاتی ہے؟ ذرا ہمیں بھی تو مطلع کیجیے۔
یہ سلسلہ نسل در نسل اس لیے بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے کہ ادلہ بدلہ کے طور پر ہم اسے بطور شادی اور ماتم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر ہم نے کھانا نہ کھلایا تو ہماری چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔
ہمارے خاندان کے خاندان ان بھیانک رسومات کے ہتھے چڑھ کر آج بدترین معاشی صورت حال کا شکار ہیں۔ ایک شخص کے گھر اگر کھانے کو دانے نہیں لیکن اسے بیٹی کے جہیز، بیٹے کے ولیمے اور مردہ ماں بہن، بیٹی اور باپ کے لیے لاکھوں روپے چاہیے تا کہ وہ بھوکے بھیڑیوں کا پیٹ بھر سکے۔
اِنھی ادلوں بدلوں نے اس حد تک ذہنی و اخلاقی پسماندگی پیدا کر دی ہے کہ اگر کوئی کسی کے جنازے پر نہ پہنچ سکے تو دوسرا بھی نہیں آتا، اگر کسی کی تعزیتی دعا نہ کر سکے تو وہ بھی نہیں کرتا. ہم پسماندگی کی اس قدر پست چکی میں جی رہے ہیں کہ کسی کی مجبوری، بیماری اور شرعی عذر کی پرواہ کیے بغیر جو ہماری غمی و خوشی کی تقریبات میں شرکت نہ کرسکے ہم اس سے قطع تعلقی و قطع رحمی کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔ ان میرا میری، دیکھا دیکھی اور فضول رسومات نے ہم سے انمول رشتے گنوا دیے۔ جن کی ہم دعوت کے لیے لاکھوں خرچ کرتے آرہے ہیں وہ رشتے تو ہم سے پہلے ہی خفا ہو چکے ہیں۔ خدارا رشتوں کا تقدس بحال کرنے کے لیے رسومات کے نام پر ذاتی رنجشوں کے خاتمے کے لیے سب آگے بڑھو، ہم نفرتوں میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب ہمیں اُلفتوں کی طرف بے لوث لوٹنا پڑے گا۔
ان قبیح رسومات نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؛ سوائے جدائیوں اور بیماریوں کے؟ اگر ولیمے یا برسی کی بات کی جائے تو ایک دن کے مُضرِ صحت کھانے پر پانچ لاکھ سے پچاس لاکھ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ مرچ، مصالحے دار، بریانی اور گھی سے بھرپور ان کھانوں سے سوائے بربادیِ صحت کے کیا حاصل وصول ہوتا ہے؟ مہربانی فرما کر آگاہ کیجیے۔ جیسا علاج سے قبل ڈاکٹر کے پاس مشورے کے لیے جاتے ہو کہ کیا کھایا کیا پیا جائے؟ ایسے ہی ایک بار کسی معالج سے پوچھ لیجیے، یہ مصالحے دار کھانوں کی دعوتوں پر لاکھوں روپے لگا کر بیماریاں کھلانے کا لوگوں کو کیا نفع ہوا؟ بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ نے تمھارے لیے تین چیزیں نا پسند فرمائی جن میں سے ایک بے جا مال ضائع کرنا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، کہا جاتا ہے؛ جو آج بوؤ گے، کل وہی کاٹو گے۔ ہم نے نفرت، بُغض، قطع تعلقی کی فصلیں بووئی ہیں آج آپس میں بے رحمی کی صورت میں وہ فصلیں کاٹ رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ اللہ کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود مخلوقِ خدا کے لیے نفع بخش ہو۔
اس وقت صُورتِ حال یہ کہ ہر دوسرے گھر میں تقریباً کوئی نہ کوئی بے روزگار، کنوارہ، کنواری اور ضرورت مند موجود ہے ہم ان کو نوازنے کی بجائے اور پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے بے جا رسومات کی ادائیگی پر دھڑا دھڑ لگے ہوئے ہیں۔ شاید بہت سے جرائم کے پیچھے ایک بڑا ہاتھ ان رسموں، حق تلفیوں اور محرویوں کا بھی ہوتا ہے، اس لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں محرومیاں ہی تو مجرم بنایا کرتی ہیں۔
کس قدر بھیانک رویے ہیں ہمارے کہ ایک شخص ساری عمر اس لیے کمائے کہ اس نے بیٹیوں کے