غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے پاکستان کا کردار

3

اداریہ

دنیا اگر فلسطینیوں کے حقوق کی پاسداری کرتی تو غزہ میں آج اسرائیل کی جانب سے قتل وغارت گری
کا سلسلہ کب کا تھم جاتا ۔اس حوالے سے فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کرنا اہم تھا جس طرح پاکستان نے 31 جنوری 2017ء کو اسلام آباد میں فلسطین اتھارٹی کو اپنا سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی ،پاکستان ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز کا سخت حامی رہا ہے اور اس کے حامی فلسطینی نظریے کے مطابق، اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔اسرائیل اور فلسطینی علاقے 1948 کی پہلی عرب اسرائیل جنگ سے لے کر 1967 کی تیسری عرب اسرائیل جنگ تک۔ پاکستان فلسطینی اتھارٹی کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی اور ریاست فلسطین کے دوسرے صدر محمود عباس تین بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔جنوری 2006 کے فلسطینی قانون ساز انتخابات کے بعد، پاکستانی صدر پرویز مشرف نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے انتخاب اور حقیقت کو تسلیم کرے اور فلسطینی عوام کے لیے دروازے بند نہ کرے۔ فلسطینی وزیر خارجہ محمود الزہر نے جون 2006 میں پاکستان کا دورہ کیا اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے پاکستانی حکومت سے لاکھوں ڈالر کی امداد بھی حاصل کی۔دوسری طرف 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جب کہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ اوسلو معاہدے کا ایک اہم اثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پاکستان نے اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا جب تک کہ اسرائیل فلسطین تنارع کا ایک قابل قبول دو ملکی وجود کی شکل میں حل قبول نہ کیا جائے۔غزہ اور فلسطین کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے، وہاں پر ہونے والی تباہی کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ، مسئلہ فلسطین پرپاکستان نے فعال کردار ادا کیا ہے ۔اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اسرائیلی مظالم کو نسل کشی قرار دیا ہے، دنیا کو اس مسئلے کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان نے مسلسل فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف آواز اٹھائی ہے اس حوالے ہر موقع پر پاکستان کا اصولی بیانیہ دنیا کے سامنے ہے ،جیسا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ فلسطین میں جارحیت پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، عالمی برادری نے جنگ بندی کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کیا، اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔اسلام آباد میں پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹیز میں زیر تعلیم فلسطینی طلبہ کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کھلے دل سے فلسطینی طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جتنا میرا گھر ہے اتنا ہی آپ کا ہے، ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، عوام مشکل کی اس گھڑی میں فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ فلسطین میں جارحیت پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اسرائیل مسلسل بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، فلسطین میں ہر شہر اور گاؤں تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں اور عالمی عدالت انصاف بے بس نظر آرہی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ عالمی برادری نے جنگ بندی کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کیا، اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اسرائیل نے ظلم اور سفاکانہ جارحیت سے 43 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی طلبہ کو پاکستان میں تعلیم کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی، پاکستان میں 145 فلسطینی طلبہ کی موجودگی شروعات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی طلبہ کو سرکاری خرچ پر تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں گی، فلسطین سے مزید طلبہ کو پاکستان لانے اور تعلیم کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ان حالات میں عالمی برادری کو دنیا کو کسی نئی تباہی سے بچانے کیلئے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ فوری طور پر روکنا ہوگا ورنہ نئی عالمی جنگ کے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.