مقامی حکومتوں سے محروم صوبہ پنجاب

3

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
راقم الحروف نے نومبر 2022اور مئی 2023میں اپنے کالموں “بلدیاتی اداروں کا خوف کیوں؟” اور ” آئین پاکستان کے لاوارث آرٹیکل” میں عرض کیا تھا کہ ماضی اور حال میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اپنی غلط پالیسیوں اور رویوں سے نہ صرف مقامی حکومتوں کی حوصلہ شکنی کی بلکہ انکو چلانے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کیں۔ کبھی صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی جنگ تو کبھی صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کو مالی وسائل فراہم نہ کرنا۔ یاد رہے پنجاب میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات سنہ2016 میں ہوئے تھے اور ان اداروں کی پانچ سال کی مدت دسمبر 2021 میں پوری ہوئی، مگر 2018 کے بعد پی ٹی آئی نے جہاں صوبہ پنجاب کو عثمان بزدار جیسے نالائق شخص کے حوالے کئے رکھا۔ وہیں پربلدیاتی اداروں کو غیر فعال کرکے صوبہ کی عوام کو مقامی حکومتوں سے محروم کئے رکھا۔ جسکی بظاہر سادہ سی وجہ صوبہ پنجاب کے تقریبا تمام ضلعوں کی مقامی حکومتوں کے سربراہوں کا مسلم لیگ ن سے تعلق تھا۔
مقامی حکومتوں کے حوالہ سے آئین پاکستان بہت واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 32 کے مطابق ریاست پاکستان مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں اور مقامی حکومتوں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔اسی طرح آرٹیکل 140-Aکے مطابق ہر صوبہ، بذریعہ قانون، ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اورمقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اُمور کی ذمہ داریاں اور اختیار ات منتقل کرے گا۔آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ تیرہ کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ پنجاب گذشتہ کئی سالوں سے مقامی حکومتوں سے محروم ہے۔ اسی طرح وفاقی دارلحکومت اسلام آباد بھی مقامی حکومتوں سے محروم ہے۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں صوبہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کو غیر فعال کرنے پر شور مچانے والی پاکستان مسلم لیگ ن نے عرصہ دراز سے چُپ کا روزہ رکھا لیا ہے۔با وجود اسکے وفاق اور صوبہ میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتیں قائم ہیں مگر پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاسی رہنماؤں اور ورکرز کی جانب سے کسی فورم پر مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے کبھی کوئی آواز سننے کو نہیں ملتی۔ دوسری جانب آئین پاکستان کی واضح ہدایات کے باوجود ہمارے ریاستی اداروں خصوصا اعلی عدلیہ، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بلدیاتی اداروں کے قیام سے آنکھیں چرانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
چند ماہ قبل الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا تو وفاقی حکومت کو مقامی حکومتوں کے قانون میں ترمیم کا خیال آگیا اور بالآخر پارلیمنٹ سے منظور شدہ ترمیمی بل کی بدولت الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں بنانے پر مجبور کردیا گیا۔ یعنی جب تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہونگی تب تک اسلام آباد مقامی حکومتوں سے محروم رہے گا۔ اسی طرح کی صورتحال صوبہ پنجاب میں بدستور قائم ہے۔ صوبہ پنجاب کی حکمران جماعت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ عوام الناس کو اپنے گلی محلہ کے مسائل کے حل کے لئے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ بلدیہ و تحصیل سطح کے ترقیاتی کام ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی مرہون منت ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نہیں چاہتے کہ مقامی سطح کے مسائل کے حل اور ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے مقامی حکومتیں قائم کی جائیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں مقامی حکومتوں کے قیام سے عوام الناس کے مسائل انکی دہلیز پر حل ہوتے ہیں وہیں پر مقامی حکومتوں کی بدولت متبادل سیاسی لیڈرشپ بھی سامنے آتی ہے۔جو آگے چل کر ملکی سیاست کی کمان سنبھالتی ہے۔ دنیا جہاں میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مملکت کی صدارت یا چیف ایگزیٹو کے عہدہ پر پہنچنے والی شخصیتوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مقامی حکومتی نظام سے ہی کیا تھا۔ پاکستانی سیاسی نظام کی بدقسمتی کہ یہاں تقریبا ہر سیاسی جماعت میں ملوکیت قائم ہے۔ اک عام سیاسی ورکر خواب میں بھی پارٹی صدارت یا مملکت کے اعلی ترین عہدہ پر براجمان ہونے کا تصور نہیں کرسکتا۔
پاکستانی تاریخ میں ایوب خان کا دور ہو، ضیاء الحق یا پھر پرویز مشرف غیر آئینی و غاصب آمروں کے ادوار میں مقامی حکومتوں کو ہمیشہ پذیرائی دیکھنے کو ملتی رہی۔ چونکہ غیر سیاسی و غاصب حکمران ہمیشہ سے مقبول ترین سیاسی لیڈرشپ سے خائف رہتے اور نہیں چاہتے تھے کہ سیاسی و پارلیمانی منظرنامے پر مقبول و عوامی سیاسی قیادت نظر آئے۔ سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لئے مقبول ترین سیاسی لیڈرشپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تو کسی کو قید و بند و جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ آمروں کی جانب سے پارلیمنٹ انتخابات کا واحد مقصد اپنے غیر آئینی اقتدار کو پارلیمنٹ کے ذریعہ آئینی تحفظ فراہم کرنا ہوتا تھا۔انہی وجوہات کی بناء پر آمروں کے دور حکومت میں قومی و صوبائی حکومتوں کی بجائے مقامی حکومتوں کو زیادہ اہمیت دیکھنے کو ملتی رہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران جماعت پاکستا ن مسلم لیگ ن اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں فی الفور مقامی حکومتوں کو قائم کرنے کے صحیح معنوں میں تگ و دو شروع کرے۔ ورنہ اس بات پر پُختہ یقین قائم ہوجائے گا کہ پاکستان مسلم لیگ ن مقامی حکومتوں کے قیام سے خوفزدہ ہے۔ اسی طرح حزب اختلاف خصوصا پاکستان تحریک انصاف کو بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لئے ہر فورم پر آواز اُٹھانی چاہیے۔ تاکہ عوام کے مسائل انکی دہلیز پر ہی حل ہوسکیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.