معذوروں کی بحالی ایک قومی مسئلہ
احساس کے اندا
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
معذور افرا د ہمارے معاشرے وہ حصہ ہوتے ہیں جن توجہ دینا اور جن کی مدد کرنا نہ صرف ہمارا مذہبی فریضہ ہے بلکہ ہما را اخلاقی تقاضا بھی ہوتا ہے ۔معذوری کی اذیت اس خاندان سے پوچھیں جس خاندان میں کوئی ایک فرد بھی معذوری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ہمارے ابا جی کہتے تھے کہ کسی معذور کو معاشرہ کا کارآمد حصہ بنادینا دکھی انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے اور دکھی انسانیت کی خدمت بہت بڑی عبادت ہوتی ہے ۔انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں نابینا افراد کے لیے سفید چھڑیاں فراہم کیں اور ٹانگوں سے محروم یا پولیو زد ہ افراد کے وہیل چیئرز بیساکھیاوں کا بندوبست وہ مسز مارڈن کے تعاون سے کیا کرتے تھے ۔اباجی نے اس دور میں معذور افراد کی ایک فہرست تیارکی ہوئی تھی اور ان کو روز صبح گھر گھر بستی بستی اپنی سایکل پر پکی ہو ئی روٹیاں پہنچاتے تھے ۔مسز مارڈن،بیگم وقار النساء نون اور ریڈکراس کے تعاون سے ان معذوروں کو راشن اور کپڑے مہیا کرتے تھے ۔اباجی کی پوری زندگی معذور افراد کی بہتری اور بحالی میں گزری ۔انہوں نے کئی معذور افراد کی شادی اور کاروبار کرا کر انہیں معاشرے کا ایک فعال کردار بنایا ۔وہ آنکھوں کے بےشمارمفت میڈیکل کیمپ لگوایا کرتے تھے ۔انہوں نے فری ٹی بی کلینک قائم کیا ۔وہ اس زمانے میں بھی معذور بچوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے کراتے تھے اور انہیں انعامات دیتے تھے ۔وہ پوری زندگی معذوروں کے لیے سرکاری ملازمت کے کوٹے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔معذور افرا د کو الگ شناختی کارڈ کے اجراء اور وظائف کی تجویذ دینے والے وہ پہلے شخص تھے جس پر آج عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ۔ہمارا شہر بہاولپور چند ان خوش قسمت شہروں میں شامل ہے جہاں گونگے اور بہرے بچوں کا ایک قدیم تعلیمی ادارہ اور درسگاہ بھی موجود ہے ۔جہاں بےشمار بچے اور بچیاں تعلیم کے زیور سے آرستہ ہو رہے ہیں ۔جنہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ فنون کی تربیت بھی دی جاتی ہے ۔آج بھی ہمارے ایک رئٹائرڈ بینکار دوست خالد سعید صاحب رضاکارانہ طور پر وہاں بچوں کو تصاویر اور پینٹنگز بنانے کی تربیت دیتے ہیں ۔اباجی کہا کرتے تھے کہ حوصلہ افزائی کے بغیر فلاحی کام ممکن نہیں ہوتا ویسے ہی جیسے پانی دئیے بغیر پودے کی نشو و نما ممکن نہیں ہے ۔فلاحی کاموں کے لیے کام کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرکے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ انسانی خدمت کے جذبے کا یہ پودا مزید پھولے پھلے اور پروا ن چڑھتا رہے ۔ریاست بہاولپور کے دور میں ڈیرہ نواب صاحب میں صادق سراۓ ہوا کرتی تھی جہاں معذور افراد کو رکھا جاتا تھا اور ان دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف فنوں سے بھی روشناس کرایاجاتا تھا ۔اسی صادق سراۓ سے بہت سےنامور قاری اور نعت خوان تیار ہوۓ جن میں حافظ اللہ داد مرحوم کا نام سرفہرست ہے ۔
پوری دنیا کی طرح ہم بھی ہر دسمبر میں صرف ایک دن معذوروں کا عالمی دن منا کر انہیں بھول جاتے ہیں ۔گویا اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں لیکن کچھ این جی اوز پورے سال ان معذوروں کی فلاح و بہبود اور بحالی کے لیے سرگرم رہتی ہیں ۔پورے پاکستان میں بےشمار این جی اوز یہ فریضہ ادا کر رہی ہیں ۔اور ایسے معذور افراد جو پاکستانی شہری ہیں اوروہ بھکاری بن کر ملک پر بوجھ بننے کی بجاۓ بہتر روزگار سے اپنے اخراجات خود اٹھانا چاہتے ہیں ۔جس کے لیےوہ گھر بیٹھے نہیں رہ سکتے۔بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ گھروں سے باہر نکلیں مگر معذوری آڑے آجاتی ہے ۔اور یہاں سے ان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے ۔بے شمار ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا خصوصی افراد اپنی زندگی آسان بنانے کے لیے وہیل چیئر سمیت دیگر سہارا دینے والے آلات مہنگے داموں خریدنے پڑتے ہیں ۔ان میں بےشمار ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور یہ مہنگے آلات خریدنے اور لگوانے سے قاصر رہتے ہیں ۔ کچھ ادارے وہیل چیئر کی فراہمی میں ان کی مدد کرتے ہیں تاکہ ان کی زندگی میں آسانی لائی جاسکے اور کچھ ادارے اورافراد مصنوعی اعضا ء لگا کر انہیں معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔کسی بھی ادارے یا این جی او کے لیے یہ ایک مشکل مرحل ہوتا ہے کہ اس نیک کام کے لیے فنڈز کہاں سے لاۓ جائیں ؟ کیونکہ مصنوعی اعضاء یا وہیل چیئر وغیرہ خاصے مہنگے ہوتے ہیں ۔لیکن اگر جذبے جوان ہوں اور کچھ کر گزرنے کی خواہش ہو تو اللہ کے بےشمار بندے ٔ اس کار خیر میں شامل ہونے کو تیار ہوتے ہیں ۔گو پاکستان بھر میں بہت سےسرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور این جی اوز معذوروں کی بحالی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ۔لیکن ابھی بھی ہر سطح پر ان کی مدد کی ضرورت موجود ہے ۔جس کے لیے ہماری سول سوسائٹی کو مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
گذشتہ دنوں بہاولنگر کی ایک این جی او سن شائن آرگنائزیشن اور مقامی این جی اوز سائبان ویلفیر سوسائٹی اجتماعی ترقیاتی کونسل نےمل کر مستحق اور نادار لوگوں کے لیے فری مصنوعی اعضا ء فراہم کرنے اور لگانے کے لیے ایک مفت میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا جو یہاں کے ایک مقامی اور نجی ” ملت ہسپتال ” میں لگایا گیا جہاں پر بہاولنگر کے ڈاکٹر محمد رمضان کی زیر نگرا نی یہ فریضہ ایک مشہور این جی او سن شائین اوگنائزیشن نے ادا کیا اور فزیکل تھراپی کے لیے ڈاکٹر امیر حمزہ اور ان کی ٹیم موجود تھی ۔جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا تاکہ میں بھی اپنی آنکھوں سے یہ مصنوعی اعضاء لگتے ہیں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر واپس گھر جاتا دیکھ سکوں ۔اس کیمپ کا افتتاح صدر چیمبر آف کامرس کے ہاتھوں ہو ا ۔جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس اقدام کو سراہتے ہوے اس قسم کے کیمپوں کی مزید خوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیا ۔پہلی مرتبہ کسی ثانگ یا ہاتھ سے محروم کو اپنے ہاتھوںکھانے اور اپنی ٹانگوں پر بلا کسی مدد کے چلنےکا منظر بے حد دلچسپ ہوتا ہے معذور کی خوشی اس وقت قابل دید ہوتی ہے جب وہ پہلی مرتبہ بلا کسی سہارے کے چلنا شروع کرتا ہے ۔اس کیمپ میں صرف مصنوعی ٹانگیں یا ہاتھ ہی نہیں لگاۓ جاتے بلکہ کئی دوسرے اعضا ء بھی اپنی مدد آپ کے تحت لگاۓ جاتے ہیں ۔ڈاکٹر رمضان عباسی صاحب نے بتایا کہ وہ پورے سال پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں یہ کیمپ لگا تے چلے آرہے ہیں اور اب تک سینکڑوں معذورں کو یہ اعضاء لگا چکے ہیں ۔درحقیقت معذور افراد کو یہ اعضاء لگانا دراصل ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہر فلاحی کام کے لیے چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے وہ ٹیکنیکل اور پروفیشنل ٹیم جو یہ کام انجام دے پھر وہ لوگ جو رضاکارانہ طور پر اس طرح کے کیمپ کا انعقاد کرانے کی خدمات انجام دیں اور تیسرا کردار ان کا ہوتا ہے جو اس کے انعقاد کے لیے فنڈز اور وسائل مہیا کریں اور چوتھا اور سب سے اہم کردار ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ان کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں اس نیک کام پر خراج تحسین پیش کریں ۔خوش قسمتی سے ڈاکٹر رمضان عباسی ،علی عباس ڈھڈی اور ڈاکٹر امیر حمزہ فزیکل تھراپسٹ کی صورت میں کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے صوبائی نائب صدر اور صحافی ڈکٹر عبدالرحمان ناصر ،مشہور سوشل ورکر اور سیاسی لیڈر محترمہ آسیہ کامل ،پروفیسر مدحت کامل اور ملک طارق ارائیں جیسے منتظم اور دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے اس کیمپ کا انعقاد ممکن بناتے ہیں اور مستحق افراد کے لیے ان مصنوعی اعضا کے لیے فنڈ ریزنگ کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ اس مرتبہ سب سے اہم کردار سرادر نجیب اللہ خان ایڈوکیٹ سرپرست اعلیٰ انجمن تاجران کا سامنے آیا جب انہوں نے فنڈ ریزنگ کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلیے گھر پر ایک تقریب میں تعریفی شیلڈز ،روائتی اجرک اور ٹوپی پیش کر کے اس ٹیم کے بہترین کام کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ایسے مخیر لوگوں کی سرپرستی ہی اس نیک کام کو آگے بڑھا سکتی ہے ۔اللہ ان لوگوں کے حوصلے سلامت رکھے اور مزید دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔غریب معذور ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جو توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہوتا ہے ۔آئندہ اکتوبر میں احمد پورشرقیہ میں اسی طرح کے کیمپ لگانے کا فیصلہ بھی کیا جس کی میزبانی کا شرف میڈیا کلب احمدپورشرقیہ کو حاصل ہو رہا ہے ۔ علاقے کے مستحق معذور افراد کے لیے یہ ایک اچھا موقعہ فراہم کیا جارہا ہے ۔میں پوری ٹیم کو اس نیک کام کے لیے جد وجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔بےشک معذور وں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ وہ تو معذور ہیں مگر ہم تو مجبور نہیں ہیں ۔پاکستان کے ہر شہر میں ایک ایسا ادارہ ضرور ہونا چاہیے جو اس طبقہ کی دیکھ بھال اور رہنمائی کرے ۔