کچے کے پکے ڈاکو
تحریر: خالد غورغشتی
سندھ کے علاقے کچے میں بد نام زمانہ ڈاکوؤں نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے ۔ ہر طرف ان کے خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔ کَچّے کا نام سُنتے ہی پاکستانی عوام کے رونگھٹتے کھڑے ہوتے ہیں ۔
لوگ خوف سے ایک لفظ تک کہنے سے ان ڈاکوؤں کے خلاف کتراتے ہیں ۔ ان کی وحشت و بربریت کا یہ عالم ہے کہ ریاست کے اندر اِنھوں نے اپنی ریاست قائم کر رکھی ہے ۔ ماضی میں بھی یہ گروہ بڑی نام ور شخصیات کے اغوا برائے تاوان میں ملوث رہا ہے ۔
ان مٹھی بھر آوارہ گردوں نے اس قدر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے کہ بڑے بڑے ریاستی ادارے اب تک ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے خوف میں مُبتلا ہیں ۔
چند سو پر مشتمل ان ظالموں نے بچوں ، عورتوں اور بزرگوں پر اس قدر ظلم ڈھائے کہ برما ، کشمیر اور فلسطین کی یادیں تازہ ہو گئیں ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ ایسی ایسی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں کہ انسانی روح کانپ جائے ۔ یہ مٹھی بھر جتھا کس طرح اتنا طاقت ور ہوا کہ پوری ریاستی مشینری ابھی تک ان کی ہزاروں ظلم بھری داستانیں دیکھ کر بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں ، یہ سب کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان افراد کی بیخ کنی کےلیے رینجر کا ایسا تازہ دم دستہ تیار کیا جاتا جو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ان سفاک قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتا لیکن ابھی تک ایسی کسی بھی قسم کی کاروائی ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔
کچے کے ان پکے ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین گولہ بارود اور اسلحہ کہاں سے پہنچ رہا ہے اور یہ عام عوام کو کیوں اتنی بے دردی سے قتل کر رہے ہیں ۔ یہ باتیں عوام تک پہنچانا ضروری ہو چکی ہیں ۔
یہ طے ایک شدہ حقیقت ہے کہ ہر شبِ ظلم کی سحر ضرور ہوتی ہے، ان شاء اللہ کچے کے ان پکے ڈاکوؤں سے بھی عوام کی عن قریب شب ظلم کی سحر ہونے کو ہے۔
یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر
سُنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی