فاقے نہیں ذائقے

51

رمضان کا بابرکت مہینہ آ چکا بلکہ پہلا روزہ جاری ہے۔ مجھ جیسے کمزور معدے والے لوگ اس اہم ترین مہینے کے طبی و روحانی خواص کو نظر انداز کر کے روزہ نہ رکھنے کے کتنے بہانے تراشتے ہیں۔
اسی طرح کوئی سگریٹ کا غلام تو کوئی نسوار سے شکست خوردہ اور کوئی مولاناؤں کی قرآن ختم کرنے کے چکر میں طویل طویل تراویحات سے بھاگتا ہوا
روحانیت و جسمانی صحت کے اس خزانے کو اپنے ہاتھوں ضائع کر دیتا ہے اور اکثر جب عقل آتی ہے تو پھر اس وقت تک انسان بیماریوں کے ہاتھوں باوجود خواہش کے بھی روزے نہ رکھ سکنے کی تکلیف دہ کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہے۔
کتنا پیارا ہے یہ مقدس مہینہ۔ زبان اور معدے کو اللہ کے حکم سے اک خاص وقت کے لیے بھوک اور پیاس کی کیفیت میں مبتلا کر کے اللہ کو بھی خوش کرنا، ساتھ ساتھ زائقوں کی قدر اور پھر غریب لوگوں کی محرومیوں کا احساس بھی۔ جسمانی اور روحانی ذائقے ہی ذائقے، وہ بھی مفت بلکہ تھوڑی سی مشقت اور ڈھیروں ظاہری و باطنی برکات۔ واہ میرے مالک تو کتنا مہربان ہے انسان پر۔
پورا سال مشقت کرنے والے معدے پر مہربانی، سال بھر دنیا داری میں مبتلا روح پر مہربانی، دنیاوی راحتوں میں مبتلا قلب و خرد پر مہربانی، حق داروں پر مہربانی کر کے ڈھیروں ثواب کمانے کی مہربانی، اختتام پر دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ عید مل کر ناراضگیاں ختم کرنے کی مہربانی۔۔
مہربانیاں ہی مہربانیاں، عنایتیں ہی عنایتیں اور محبتیں ہی محبتیں مگر نا سمجھ انسان رحمتوں اور نعمتوں کے اس مختصر سے مہینے کی سب برکتین جان کر بھی خسارے کماتا ہے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
روزہ معدے کے ساتھ ساتھ زبان، نگاہ، ہاتھ، پاؤں، روح غرض انسان کے ظاہر و باطن سے منسلک ہر چیز کی اوور ہالنگ کرتا ہے۔
انسان جب اپنی مرضی کے خلاف صرف اللہ کے حکم کے تحت اس کی رضا کی خاطر خود پر پابندیاں لگاتا ہے تو یقین کریں کہ روح کو جو توانائی، حوصلہ اور ضمیر کے جاگنے کی لہر عطا ہوتی ہے
اس کا نعم البدل دنیا میں ممکن ہی نہیں۔ انسان کی خود اپنے ساتھ اس جنگ میں جو کمزور لمحے آتے ہیں وہی اک آزمائش سے فاتحانہ انداز میں گزر جانے کا احساس دلاتے ہوئے انسان کو کتنا حوصلہ، اصول پسندی، قول و فعل کی یکسانیت اور خوش قسمت ہونے کا گراں مایہ احساس بیدار کرتے ہیں اس احساس کا نشہ و سرور کسی پیمانے میں نہیں سما سکتا۔ بے شک انسان کی زندگی کا شیڈول تھوڑا بہت بے ترتیب ضرور ہو جاتا ہے مگر یہ مقدس مہینہ ہمیں یہ عظیم بات سکھا کر ہر بات کا مکمل جواب بتاتا ہے کہ:
اپنی خواہشات و ضروریات بڑھانے سے انسان کا قد ظاہری و باطنی طور پر کم ہوتا ہے اس لیے خواہشات و ضروریات کے سمندر کو صبر، شکر اور دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر والی کشتی پر بیٹھ کے پار کرنا چاہیے تاکہ ابدی زندگی کا سامان ہوسکے۔
ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ بابرکت فاقوں والا یہ مقدس مہینہ اللہ تعالی نے ہمیں جسمانی و روحانی زائقوں سے آشنا و مستفید کرنے کے لیے عطا کیا ہے۔
اب یہ ہم تک ہے کہ ہم کیا کھوتے ہیں اور کیا پاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو رمضان کی رعنائیوں سے مستفید ہونے کا مکمل موقع و توفیق دے۔۔
آمین ثم آمین۔

تحریر : عاصم نواز خان (غازی/ہری پور)

13/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-9-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.