آج ہم جس شخصیت کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ باکمال شخصیت کیسے بنی
کسی یونیورسٹی نے انہیں باکمال نہیں بنایا صحبت نیکاں نے خورشید کو کمال عطا کیا
اور غور و خوض نے اپ کو مفکر اور مفسر قران بنا دیا ۔
جس طرح شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے قران کریم کو جس وقت
غور و خوص سے پڑھا تو انہوں نے مغرب کی دانش پہ ہلہ بول دیا
بالکل اسی طرح علامہ خورشید کمال نے بھی کمال کر دیا
اور انہوں نے بھی فنون و علوم کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر انمول موتی جمع کر لیے
اور آج ہم ان کے موتیوں کی مالا اپنے گلے میں پہنے ہوئے ہیں
علامہ خورشید کمال کی باکمال دختر نیک اختر فریحہ کمال نے آج کمال اکیڈمی کے زیر اہتمام
علامہ خورشید کمال کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا
جس کی صدارت بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جناب نذیر قیصر نے کی
. جبکہ مہمانان گرامی میں جناب خالد محمود راؤ قونصلیٹ جنرل آزربائیجان ۔
حبیب رفیق اعزازی قونصلیٹ جنرل رشیا جناب حامد رانا ۔ بابا نجمی۔
جناب شیخ اظہر۔ جناب فرخ سہیل گوئندی۔ ڈاکٹر افتخار بخاری ساجد حسین ساجد ۔
جناب نواز کھرل۔
ہارون عباسی ماہر ابلاغیات ۔ جناب ممتاز راشد لاہوری محترمہ غزالہ نظام دین ۔
ڈاکٹر ابرار۔ محترم جاوید رضوی ۔ جناب امجد اقبال امجد ۔
حامد مراد ۔ جناب جواد وسیم نے
شاندار الفاظ میں علامہ مرحوم کو اپ نے دل کا ہدیہ خراج عقیدت پیش کیا ۔
جناب یوسف پنجابی نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے ۔
فریحہ کمال نے اپنے والد گرامی کے دوستوں کو ارادت و عقیدت کے
چراغوں کی روشنی کی لو میں ان کا خیر مقدم کیا ۔ علامہ خورشید کمال مرحوم کی
شریک سفر کی موجودگی ماحول میں روحانی آسودگی پیدا کر رہی تھی اور ان کے سعادت مند بیٹے
میجر فیصل اس روحانی منظر کو اپنی اور اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کر رہے تھے ۔
تلاوت قران کریم اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت مغفرہ اعجاز نے حاصل کی ۔
محترمہ فردوس نثار کھوکھر نے اپنے ابتدائیہ کلمات میں علامہ خورشید کمال کو
شاندار الفاظ میں پنجابی زبان میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے
ان کی تصنیفات ۔ نہج البلاغہ ۔ حیات اقبال اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم کا پنجابی میں مفہوم
منظوم کر کے ہمارے لیے اسانیاں پیدا کر دیں ہیں آپ کا یہ کام ہر مکتبہ فکر کے جید علماء اور
مستند مفکروں اور مفتیوں نے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سند قبولیت دی ہے ۔
یوسف پنجابی ایک کہنہ مشق شاعر اور پنجابی زبان کے بہت بڑے عالم ہیں
آپ نے کمال مہارت کے ساتھ کم وقت میں بہت سلیقے اور قرینے کے ساتھ نظامت کے فرائض سر انجام دیے
آپ کی نظامت میں خطاب فصاحت و بلاغت کے دریا بہہ رہے تھے ۔
جی چاہتا تھا کہ آپ بولتے جائیں اور سامعین سنتے چلے جائیں آپ کی گفتگو کی
جستجو میں ہماری آرزو جاگ اٹھی
ایسے جلیل القدر یوسف پنجابی کا وجود اس تقریب میں ایک روحانی کیف و سرور پیدا کر رہا تھا ۔
تمام مقررین نے علامہ خورشید کمال کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔
برقی ذرائع ابلاغ اور پرنٹ میڈیا کے مستند صحافی سرمد صہبائی ۔
سابق ڈپٹی کمشنر کامران لاشاری
محترم آصف بھلی اور عارف لوہار نے اپنے پیغامات میں علامہ خورشید کمال کی یادوں کے چراغ
روشن کرتے ہوئے ان کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ۔
علامہ خورشید کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جو کام قران حکیم کے حوالے سے کیا ہے
اس کی مثال پورے پاکستان میں نہیں ملتی ۔حکومت پاکستان علامہ خورشید کمال کو اگر
صدارتی تمغات سے نوازتی ہے تو اس میں حکومت کے وقار اور افتخار میں اضافہ ہوگا
علامہ خورشید کمال کے دل میں کبھی بھی اس قسم کی پزیرائی یا
کوئی ایسی خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی ہے
وہ ایک بے غرض انسان تھے انہوں نے اپنا اجر حکومت سے نہیں اللہ سے طلب کیا ہے
اور ان کو بہترین اجر مل گیا ہے ایسے جلیل القدر انسان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں
مولا کریم ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
علامہ مرحوم نے کبھی بھی اپنا اجر حکومت سے نہیں مانگا
انہوں نے کہا تھا کہ میرا اجر میرے اللہ کے پاس ہے ۔
جناب شیخ اظہر صاحب کو دیکھ کر علامہ مرحوم کی یادوں کے چراغ جل اٹھے اور یہ حقیقت ہے کہ
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
علامہ خورشید کمال کی دختر نیک اختر فریحہ کمال نے اپنے والد گرامی کو شاندار الفاظ میں
خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی زبان میں خوبصورت انداز میں سورہ فیل اور سورہ قدر منظوم پیش کیا
فریہ کمال اپنے والد گرامی علامہ خورشید کمال کی حقیقی جانشین ہیں
اور انہوں نے کمال اکیڈمی کے پلیٹ فارم پر علامہ خورشید کمال کے کمالات کا اظہار
اور ان کے افکار و نظریات کا پرچارک کا تہیہ کر لیا ہے ۔
آج ہم چراغ رخ زیبا لے کر بھی ڈھونڈنے نکلیں تو علامہ خورشید کمال جیسا انسان
دور دور تک ہمیں دکھائی نہیں دیتا اپ کی فکر کے بغیر میں محسوس کرتا ہوں کہ ادبی حلقے دور تک
صحرا ہی صحرا میں بدل گئے ہیں ایک انسان کی موجودگی ماحول میں کتنی آسودگی پیدا کر دیتی تھی
تیری خوشبو نہیں ملتی تیرا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں تیرے جیسا نہیں ملتا
محترمہ فردوس نثار نے بتایا کہ
جناب امجد اقبال ۔
حامد مراد اور جناب طاہر احمد فاضلی کے خصوصی تعاون کے بھی
ہم بے پناہ ممنون ہیں کمال اکیڈمی کی چیئر پرسن محترمہ فریحہ کمال نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا
احمد ندیم قاسمی مرحوم نے کہا تھا کہ میں نے غالب کو اس وقت سمجھا
جب دیوان غالب کو میں نے پنجابی منظوم کی شکل میں پڑھا اور یہ حقیقت ہے کہ قران کریم کو سمجھنے کے لیے پنجابی منظوم مفہوم علامہ خورشید کمال نے آسان کر دیا ہے ۔
علامہ خورشید کمال کی زندگی بچپن جوانی اور بڑھاپا تینوں ادوار میں تقسیم ہے
اپ کا بڑھاپا اپ کی جمالیاتی کیفیت کا ائینہ دار ہے ۔
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو حالت بدل گئی
کسی بے جان دیوتا کے اگے سو سال عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ چند لمحے کسی حقیقی انسان کی صحبت میں گزار لو یہ گراں مایہ جملہ اپنے باطن میں لا تعداد اسباق رکھتا ہے ۔
کاملین کی صحبت آپ کو کامل بنا دے گی ۔ شاعر مشرق نے کہا تھا کہ
نااہلوں کی صحبت اہل کو ناہل بنا دیتی ہے
اگر وہ شعلہ ہے تو گھاس پھونس بن کر رہ جاتا ہے
بروں کی صحبت اچھوں سے بدگمان کر دیتی ہے جب کوئی کبوتر یا مینا کوؤں سے تعلق جوڑ لیتی ہے
تو اس کے پنکھ تو سفید رہتے ہیں لیکن اس کا دل سیاہ ہوتا جاتا ہے
بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ہوش مندوں کے ساتھ رہو گے تو ہوشمند بن جاؤ گے۔
منشاقاضی
حسب منشا
27/02/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-20-1-scaled.jpg