کسی سیمینار میں ایک ماں نے الخدمت فاو¿نڈیشن کے ذمہ داران سے کہا کہ جب فلسطین میں امن ہو جائے گا اور حالات بہتر ہو جائیں گے تو ہم پاکستانی مائیں ان بچوں کو سہارا دیں گی انہیں ہماری گودوں میں دیا جائے تاکہ ہم ان کی نگہداشت اور پرورش کریں منتظم بھائی نے جواب دیا کہ ہم یہ منصوبہ بنا رہے ہیں کہ فلسطین میں ازادی اور امن ہوگا تو ہم پاکستان سے اپنے بچوں کو فلسطینی ماو¿ں کے حوالے کریں گے تاکہ وہ ہمارے بچوں کی ایسی تربیت کریں جیسی انہوں نے اپنے بچوں کی کی ہے جن کے استقامت اور کیفیت ایمان ہم جیسے مسلمانوں کو شرمندہ کر دیتی ہے۔یہ ایک منظر دل کو چھلنی کر دیتا ہے کہ ایک بھوکا لاغر کمسن اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا بچہ کافی دنوں سے روزانہ آٹا لینے کے لیے قطار میں آ کر کھڑا ہوتا ہے مگر اس کی باری آنے سے پہلےاٹا ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک دن اسی لائن میں ایک گولی آ کر اسے لگی وہ گرا ،کلمہ پڑھا ، انگلی اٹھائی اور اللہ کے پاس پہنچ گیا ایسے جیسے مالک کائنات نے اسکی تمام بھوک اور تکالیف سے نجات دے دی۔نامور صحافی الجزیرہ انس الشریف بھی تو ایک ایسی ہی جیدار ماں کا سپوت تھا جس نے انتہائی بہادری سے غزہ کے حقائق دنیا تک پہنچانے کیلئے جان کی بازی لگادی،،10اگست 2025الشفاءہسپتال کے باہر موجود صحافیوں کے خیمے پر بمباری کی گئی اس میں موجود صحافی انس الشریف اور انکے چار ساتھی محمدقریقع، محمد نوفل، ابراہیم ظاہر اور مومن علیوہ نے دوران کام جام شہادت نوش کی۔انس کے آخری الفاظ جو بعد از مرگ انکے اکاو¿نٹ سے جاری کئے گئے دل دہلانے دینے والے ہیں ” اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں توجان لیجیے کہ اسرائیل نے میری زندگی ختم کر کے میری آواز خاموش کر دی ہے میں نے ہر طاقت اپنی قوم کی آواز بلند کرنے میں صرف کی اور غزہ کو نہ بھولیں اور مجھے اپنی دعاو¿ں میں یاد رکھیں” اوراسکے فورآ بعد انس الشریف کے بھتیجے نے انکا فریضہ سنبھال کر ثابت کیا کہ جب راہ حق میں پیچھے ہٹ جانا مومن کی صفت نہیں۔
ظلم و بربریت انتہاو¿ں پر ہے مسلم حکومتوں کی بے حسی اور بے غیرتی بھی انتہا پر ہے 57 اسلامی ممالک اور ان کی فوجیں آٹے کی بوریاں تک وہاں پہنچانے پر قادر نہیں سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، کہیں یہ بھی خبریں ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے دباو¿ پر حماس کو سرینڈر کرنے کا مطالبہ کیے جانے کا امکان ہے جبکہ خود تل ابیب میں روزانہ جنگ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں سڈنی میں تین لاکھ باغیرت انسانوں نے احتجاج کر کے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے اہل غزہ نے صحابہ کرام اور قرون اولی کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر دی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی کی شان میں یہ آیات نازل ہوئیں “ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے”( سورہ احزاب ایت 23)
” ایسے ہی لوگ راست رو ہیں”
(سورہ حجرات آیت 7)
” وہی سچے لوگ ہیں”( سورہ حجرات ایت 15 )
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں ارشاد ربانی ہے” محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اللہ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں”
(سورہ الفتح آیت 29) ان دو سالوں میں صحابہ کرام اور قرون اولی کی عملی مثالیں ہم نے اہل غزہ میں دیکھیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے رویے،عادتوں اور رہن سہن میں کیا تبدیلی آئی ؟کیا غزہ ہمارے لیے محض ایک میچ بن کر رہ گیا کہ روزانہ اسکور چیک کیا جاتا ہے کہ آج کتنے بچے مرد و خواتین شہید ہوئے اور پھر اگلی خبر پر نظر ، ممکن ہے کبھی ان خبروں پر دکھی بھی ہوتے ہوں،ان دکھی خبروں پر انسو بہاتے بھی ہوں، مگر صرف چند وقتی آنسو انکی قربانیوں کا حق ادا کر سکتے ہیں ؟ رونا تو کسی فلم کے جذباتی منظر کو دیکھ کر بھی آجاتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ہم کیا سیکھ سکے ہیں، اہل غزہ کی مائیں، بچے، جوان بوڑھے ہمیں قران کی آیات پر عمل کرنا سکھا رہے ہیں ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسباق دہرا رہے ہیں، اللہ اور اخرت پر پختہ ایمان دکھا رہے ہیں، صبر قربانی ایثار کیا ہوتا ہے یہ شہید کمانڈر صلاح شحادہ رحمت اللہ کی وصیت میں ملاحظہ فرمائیے “تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو ہمارے سردار ابو القاسم محمد بن عبداللہ پر اما بعد یہ ایک شرعی وصیت ہے اور میں ہر اس شخص کو جو اسے پڑھے وصیت کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل کرے اور اس میں درڑ ہر بات کو پورا کرے۔ آپ سب کو اللہ سے ڈرنے اور اس کے راستے میں جہاد کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ فلسطین کو اپنی اور اپنی نسلوں کی امانت سمجھیں یہاں تک کہ پانا حیفا اور عقلان کے ساحلوں پر اذان کی صدائیں گونجیں ، وصیت اپنے مال قرضوں کی لکھی ہوئی موجود شریعت کے مطابق تقسیم کا حکم ، تعزیت کو لمبا نہ چلایا جائے، ماتم سے منع کیا، بیوی بچوں سے معافی کی درخواست ،قبر پر سنگ مرمر نہ لگایا جائے، شہید نہ لکھا جائے اہل غزہ سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ زندگی کا مقصد صرف بھوک مٹانا نہیں یہ بھوکے ہو کر بھی اسرائیلی ٹینکوں کا تعاقب کرتے ہیں ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اسرائیلی فوجیوں کو ایسے شکار کرتے ہیں جیسے اجنبی بطخیں کسی فارم میں پھنس گئی ہوں، نمازیں ایسی تیاری سے پڑھتے ہیں جیسے عظیم معرکہ سر کر رہے ہوں، اس جمعہ کے خطبے کے لیے امام صاحب کھڑے ہوئے اور تاریخ کا انوکھا خطبہ دیا” آپ بھوکے ہیں خطبہ سننے کی ہمت نہیں میں بھوکا ہوں زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا