افسران کو نفسیاتی مریض بننے سے بچایا جائے

ملک سلمان maliksalman2008@gmail.com

2

گذشتہ دنوں پنجاب میں اپنے ہی بیج میٹس کو جس طرح Disgrace کیا گیا یہ نہ تو پہلا واقع تھا اور نہ ہی آخری۔ اپنی سیٹ پکی کرنے کیلئے بیج میٹ اور سنئیرز کو فکس کروانا روٹین میٹر بن چکا ہے۔
پی ٹی آئی دور میں رقم دو سیٹ لو کے تحت ہونے والی ٹرانسفر پوسٹنگ کے بعد بیوروکریسی میں شروع ہونی والی لوٹ مار اور عیاشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پیسوں کی عوض ہونے والی خلاف میرٹ ٹرانسفر پوسٹنگ اور تعیناتیوں نے افسران کے درمیان نفرت کی ایسی لکیر کھینچی کہ بیج میٹ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے۔
بزدار کا سیاہ ترین اور شرمناک دور ختم ہوا تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کے خاتمے کے مشن امپاسل کو پاسیبل کر دکھایا۔ میڈم وزیراعلیٰ آپ کے جذبے اور ایمانداری کو سلوٹ لیکن چیف سیکرٹری اور آئی جی میرٹ کے”سپنوں“ کی دنیا دکھا کر ”پک اینڈ چوز“ کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ افسران جو اخلاقی اور مالی لحاظ سے بدنام زمانہ کرپٹ ترین ہیں، بزدار اور پرویز الٰہی دور کے بڑے بینیفشریز تھے انکو اہم ترین سیٹوں پر لگایا ہوا ہے۔
اس وقت پنجاب میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایم ایس کے گریڈ 18سے گریڈ 22تک کے 59افسران OSD ہیں۔درجنوں افسران تعیناتی کی منتظر ہیں اور لاڈلوں کو پرموشن ٹریننگ کے باوجود بھی غیر قانونی طور پر سیٹوں پر رکھا ہوا ہے۔
لاقانونیت اور فرعونیت کی انتہا دیکھیے کہ کچھ افسران 2022 اور 2023 سے اب تک OSD ہیں۔ جبکہ سنئیر سیٹوں پر جونئیر افسران تعینات ہیں۔ اپنے جونئیر کے ماتحت پوسٹنگ ملنے کی وجہ سے افسران کی اکثریت لاوارثوں والی زندگی گزار کر شدید پریشان ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہر وقت key Posting والے احساس برتری کی وجہ سے اور OSD رہنے والے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر دونوں نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔
بیج میٹ، بیج میٹ کا دشمن بنا ہوا ہے جبکہ key posting والے جونئیرافسران سنئیرز کا احترام بھول چکے۔
سرکاری ملازمین کی دنیا بہت چھوٹی ہے انڈرٹریننگ کے دور میں انکی غربت اور لاچاری کی کہانیاں ساتھی بیج میٹ بہت مزے سے سناتے ہیں کہ یہ جب ہمارے ساتھ ٹریننگ کیلئے آیا تو غربت کے کن حالات میں تھا۔ پھر کس پوسٹنگ میں کیا اندھیر نگری مچائی، کس شہر پوسٹنگ میں لوٹ مار کی وجہ سے عوام کے ہاتھوں گالیاں اور چپیڑیں تک پڑیں۔ ساتھی افسران سے ہر روز انکی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ چند افسران کے بارے مشہور ہے کہ اگر ایک وقت میں انکا سگا باپ کال کرے اور دوسری طرف سے رشوت کے پیسوں کی ڈیل کروانے والا ٹاؤٹ تو وہ ٹاؤٹ کی کال پہلے اٹھائیں گے۔
عوامی اعتماد اور کرپشن کے خاتمے کیلئے چند افسران کو پنجاب سے نکالنے اور بیوروکریسی کی ری شفلنگ ناگزیر ہے۔
ماضی میں کمشنر کی مشاورت سے ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی رائے سے اسسٹنٹ کمشنر لگائے جاتے تھے جس سے ایک بہترین ٹیم اور کوارڈینیشن سے سسٹم چلتا تھا۔ ابھی مبینہ طور پر پنجاب میں چیف سیکرٹری کی صورت ون مین شو چل رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سارے اضلاع کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنر ایک دوسرے کے احکامات کے برخلاف گئے ہیں۔ کسی بھی صوبائی محکمے کی کامیابی کا دارومدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ وزیر اور سیکرٹری اپنی مرضی کی ٹیم بنا کر کام کریں۔
نگران حکومت سے شروع ہونے والے ”گینگ آف سیون” کے بیوروکریٹک مارشل نے جہاں حکومت سے عوام کا اعتماد خراب کیا وہیں سینکڑوں افسران بھی شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ ابھی بھی مذکورہ ”گینگ آف سیون“ درجنوں سنئیر سیٹوں پر جونئیر افسران لگا کر حصے وصول کر رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پک اینڈ چوز کی وجہ سے پولیس سروس آف پاکستان، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایم ایس سمیت کوئی بھی مطمئن نہیں ہے سوائے ان کے جن کو آؤٹ دی وے جا کر نواز ا گیا۔
وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ تمام ٹرانسفر پوسٹنگ کا ازسرنو جائزہ لیں۔ خاص طور پر بیرونی فنڈنگ والی تمام پوسٹوں پر افسران کی تبدیلی کی جائے بلکہ انکا آڈٹ بھی کروایا جائے کیونکہ زبان زد عام ہے کہ وہاں حصے بانٹے جاتے ہیں۔ ان پوسٹوں پر تعینات سفارشی جونئیر افسران نے اربوں روپے کی کرپشن کرکے بیرونی فنڈنگ والے اداروں کے سامنے پنجاب اور پاکستان کا ایمج خراب کیا ہے اس لیے یہ کسی صورت رعایت کے مستحق نہیں۔
صوبائی سیکرٹری، ڈی جی، ایم ڈی، پراجیکٹ ڈائریکٹر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسی طرح ایڈیشنل آئی جی، آر پی او، سی پی او اور ڈی پی او کی تقری کیلئے چیف سیکرٹری اور آئی جی کی صورت فرد واحد کی حکمرانی ختم کرکے کم از کم چھے رکنی سلیکشن ٹیم بنائی جائے جس میں متناسب تعداد میں پارلیمینٹیرین اور افسران شامل کیے جائیں جو میرٹ پر افسران کی تقرری کیلئے سفارشات مرتب کر سکیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کے لگاتار کلین سویپ اور کامیابی کا ایک ہی راز ہے کہ وہاں بیوروکریسی نہیں پارلیمنٹ سپریم ہے۔
“کے پی آئی” کی وجہ سے افسران میں زیادہ سے زیادہ سروس ڈلیوری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ “کے پی آئی” میں عوامی فیڈ بیک کو شامل کیے بن یہ کارگردگی رپورٹ ادھوری ہے کیونکہ “کے پی آئی” اسی صورت حقیقی اور میرٹ رپورٹ سمجھی جاسکتی ہے جب اس میں عوامی فیڈ بیک کے نمبر بھی شامل کیے جائیں۔ سٹیٹ لینڈ کی حفاظت اور تجاوزات کے خاتمے میں ناکام ہونے والوں کو آئندہ ہرگز فیلڈ پوسٹنگ نہ دی جائے۔ کے پی آئی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ تین ماہ کی رپورٹ کے بعد ٹاپ فائیو کو انعام اور لاسٹ فائیو کو سزا دی جائے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.