”خواجہ آفتاب حسن کا موضوعاتی اور تکنیکی تنوع“

عبدالوحید

4

خواجہ آفتاب حسن کے افسانوں کا مجموعہ “خالی سڑک ” پڑھتے ہوئے ایک بات باعث اطمینان اور دلچسپ رہی کہ خواجہ آفتاب حسن موضوعاتی اور تکنیکی اسیری نہیں کاٹ رہے، بل کہ جس موضوع نے بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کیا یہ اُسے اپنی گرفت میں لے آئے اور جس موضوع پر بھی اُنھوں نے لکھنا چاہا اُسے کسی ایک ہی طریقے سے لکھنے کے بجائے اُسے لکھنے کا بہترین راستہ ڈھونڈا۔ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ خواجہ آفتاب حسن اپنے موضوعات اور تکنیک میں آزاد ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں ایک لکھاری اپنی انفرادیت قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہر ذی شعور فکشن رائٹر کہیں نا کہیں یہ چاہتا ہے کہ اُس کا رنگ باقیوں سے جُدا ہو، اُس کی شناخت جداگانہ ہو۔لکھاری کہیں نا کہیں یہ چاہتا ہے کہ وہ قوال کی طرح ممتاز نظر آئے، ناکہ بطور ہمنوا تالیاں پیٹے، دیہاڑی لگائے اور گھر کی راہ لے۔ اگر کہیں ہمنوائی در بھی آئے تو کچھ لکھاری یہ احساس ہوتے ہی اپنا راستہ بدل لیتے جیسے ہم ڈاکٹر انور سجاد کے افسانوی رنگ کو سعادت حسن منٹو کے رنگ سے جدا ہوتے صاف دیکھ سکتے ہیں۔ الگ شناخت کے ساتھ کچھ مسائل بھی جُڑ جاتے ہیں ہیں لیکن اِس کے فوائد اتنے بے بہا ہوتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے مسائل دب کر رہ جاتے ہیں۔ الگ شناخت رکھنے والا ادیب اپنے پڑھے جانے سے پہلے اپنے قاری کے دماغ میں کچھ مفروضے بہ ہرحال پہلے سے ہی قائم کر دیتا ہے۔قاری یہ مفروضے موضوعات، تکنیکی تنوع، فضا بندی، لوکیل اور زبان کے برتاﺅکے حوالے سے قائم کرتا ہے۔ آپ سمیع آہوجا کا نام ذہن میں لائیں آپ کے ذہن میں تاریخی شعور اور خاص ڈکشن کا تصور آئے گا۔ آپ واجدہ تبسم کا نام ذہن میں لائیں جنسیت اور لوکیل کا تصور ابھرے گا، آپ محمد جواد کا نام ذہن میں لائیں آپ کو ایک بے حد حساس کردار اپنے چھوٹے چھوٹے باطنی مسائل میں الجھا نظر آئے گا، آپ ظہیر عباس کا نام ذہن میں لائیں ایک حیرت کدہ آنکھوں کے سامنے ہو گا، غافر شہزاد کا نام تصور کریں آپ کو کہانی اور کرداروں کے متوازی ایک دانشور پوری معروضیت کے ساتھ نشتر زنی کرتا اور پھاہے رکھتا نظر آئے گا، ایسے ہی خالد فتح محمد کے ڈھلتی عمر کے کردار پراسرار فضا بندی میں جنسیت کی پر پیچ راہوں پر چلتے کسی تعمیری کام میں مصروف نظر آئیں گے۔ اس صورتحال کو ہم فکشن رائٹر کا صاحب اسلوب ہونا یا خاص تشخص کا مالک ہونا کہتے ہیں۔ یہاں میں صاحب موضوع کی ٹرم استعمال کرنے سے گریز کروں گا۔ علیحدہ تشخص قائم کرنے والاادیب وہ ڈگر ڈھونڈ نکالتا ہے جس پر چلتے ہوئے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ امکانات کے در وا کر سکتا ہے وہ اُن راستوں پر نہیں چلتا جہاں کسی اور کے لیے تو روشنی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے اندھیرا ہوتا ہے۔ لکھاری کا موضوعاتی اور تکنیکی تلاش کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ موضوعات کی طرف جھکاﺅ ایک الگ معاملہ ہے جبکہ موضوعات کی اسیری ایک یکسر الگ معاملہ ہے ایسا ہی تکنیک کے باب میں ہے کہ ہر موضوع ایک الگ تکنیک کا تقاضا کرتا ہے لیکن خاص تکنیک کی اسیری بھی کچھ لکھاریوں کے فکشن کو گہنا دیتی ہے۔
اس پس منظر میں جب خواجہ آفتاب حسن کے موضوعاتی تنوع کو دیکھتا ہوں تو معاشی دباﺅ اور سماجی نا انصافی کے تسلسل کے ساتھ ان کے افسانوں میں زندگی کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ خواجہ آفتاب حسن کو منفرد بنانے والا ان کا مختلف نوعیت کا طریقہ اظہار ہے۔ وہ کسی ایک طرح کے طریقہ اظہار کے قیدی نہیں ہیں ناہی ان کا کردار کسی ایک ہی سٹیٹ آف مائنڈ میں ٹھہرا ہوا ہے کوئی کردار غصے میں ہے، کوئی ڈرا سہما ہے کوئی ریشنل ہے، کوئی ارریشنل ہے تو کوئی بے حد حساس ہے۔ ایسا ہی طریقہ کار تکنیک میں برتا گیا ہے، کہیں خواب یا وہم ایک ٹول کے طور پر کہانی کو آگے بڑھا رہا ہے تو کہیں کرداروں کی حرکات وسکنات اوراحساسات کو ایک صورتحال میں رکھ کر بیان کر دیا گیا ہے اور کہیں افسانے کو چالیس اور پچاس کی دہائی کے روائتی انداز میں بیان کر دیا گیا ہے لیکن تمام افسانوں میں موضوعات آج کے دور کے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ” سموگ “بہ ظاہر کہانی پن سے ماورا ایک صورت حالات کو بیان کر رہا ہے، افسانے کے اختتام پر قاری کو اپنا گھٹتا ہوا سانس بتاتا ہے کہ افسانہ نگار اپنا کام کر چکا ہے ۔ اِس افسانے میں سموگ کی گہر ہے، دور کے علاقوں سے لاہور آنے والوں کی محبت کی داستان ہے، آرٹی فیشل انتیلی جنس کے بطن سے پھوٹی بے روزگاری ہے، سہانے مستقبل کی فکر ہے، واپس اپنے علاقوں میں نہ جانے کا عزم اور بیماری ہے۔ زندگی کچھ عجیب طرح سے پھنس گئی ہے ، سموگ، محبت، بے روزگاری، اپنے آبائی علاقوں سے دوری اور آلودگی میں۔ یہ ہمارے ہاں کے افسانوں کا روائتی انداز بیان نہیں ہے ۔ راوئتی شاید اس لیے نہیں ہے کہ معاملہ جدید زندگی کا ہے اس لئے ٹریٹمنٹ بھی جدید ہی چاہیے تھا۔
ایسے ہی افسانہ” سیلز مین” دیکھیں جو اپنے اختتام تک اپنے اندر ابہام رکھتا ہے کہ افسانے کا مرکزی کردار حقیقت میں کسی ایسے سیلز مین کو ملا بھی تھا کہ نہیں جو گاڑیوں کے شو روم پر آئے مرکزی کردار کو گاڑی خریدنے کی ترغیب دینے کے بجائے اُسے گاڑی خریدنے سے منع کرتا ہے کہ ایسا کرنا اُس کی جیب پر بہت بھاری پڑے گا۔ افسانے کے اختتا م پر جب مرکزی کردار کی بیوی شوہر کے ساتھ دوبارہ شو روم پر سیلزمین کی شکایت کرنے جاتی ہے تو ایسے کسی بھی سیلزمین کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ یہ افسانہ صارفیت کے اُس عفریت کی بھیانک شکل کو دکھاتا ہے جس سے ہماری زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اس افسانے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ افسانہ بتاتا ہے کہ صارفیت مردوں اور عورتوں کو مختلف انداز سے متاثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.