!سیاست تری ہے بزم تماشا لئے ہوئے
تحریر: نوید مغل
ایسے لگتا ہے کہ ہم بدلہ لینے کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے کو اپنی سیاسی فتح سمجھتے ہیں۔ انتظامی اور معاشی نظام کی درستگی کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنا ہماری ترجیحات کا حصہ بن گیا ہے۔ ہمیں جمہوری سیاست کے لیے جو راستہ اختیار کرنا چاہیے ، اس میں ناکامی کا سامنا ہے ۔یہ خطرناک رجحان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت میں سیاسی پختگی کا فقدان، ادھر ہمارا اسٹیٹ سسٹم عدم شفافیت اور بے انصافی کے اصول پر قائم ہے جو ہماری معاشرت اور معیشت کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ یہ معاملات ہمیں محض داخلی معاملات تک ہی محدود نظر نہیں آتے بلکہ ہمارے علاقائی یا عالمی معاملات میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایک طرف مفاہمت، ڈائیلاگ اور معاشی چارٹر کی باتیں ہیں تو دوسری طرف صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے کی ضد ہے ، ایسی صورت جمہوری سیاست آگے کیسے بڑھے گی۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو اس وقت قومی مسائل و مشکلات کا ہمیں سامنا ہے، اسے کسی بھی صورت میں سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ان حالات کا کوئی فرد واحد یا ادارہ ذمے دارہے۔بطور ریاست ہم سب ناکامی کا حصہ ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ہم بھی اس بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ایک طرف مفاہمت اور دوسری طرف مزاحمت کی سیاست کو ہی دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت ہو یا مزاحمت دونوں کو اس ملک میں مصنوعی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں جو مفاہمت اور مزاحمت کے نام پر ہورہا، اس میں بھی ہمیں کئی کمزور پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ حالات نے گرہ کچھ اس انداز سے لگائی ہے کہ کسی کو پتہ نہیں چل رہا کہ گرہ کھولنی کیسے ہے۔ قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات برتری حاصل کررہے ہیں۔ مفاداتی ایجنڈا ہر فریق پر اس حد تک غالب ہوچکا ہے کہ ہماری قومی ترجیحات بہت پیچھے رہ گئی ہیں ۔ان حالات میں ہمارے چھ بڑے قومی مسائل کی سنگینی کو ہی دیکھیں تووہ خطرناک صورتحال کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی سیاست جتنی آج کل بحرانوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔یہ بحران حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پیدا کردہ ہیں۔حکومت اس وقت عوام اور معاشرے کے لیے بحران پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے جب اس کی گورننس ناقص ہوتی ہے۔ فیصلہ سازی کا عمل سست رفتار ہوتا ہے یا وہ اہم انتظامی‘سیاسی اور مفادِ عامہ کے امور پر فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔اپنے متحارب سیاسی رہنمائوں کے خلاف جارحانہ بیان بازی آج کی پاکستانی سیاست کاعمومی چلن ہے۔سیاسی رہنما عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے شاید ہی کبھی آپس میں مکالمہ کرتے نظر آئیں۔وہ ہر وقت اقتدار کے حصول کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
بحران زدہ سیاست ہی ناقص معیارِجمہوریت کاثبوت ہے۔اگرچہ سیاستدان جمہوری اصولوں اور آدرشوں کا دم بھرنے کے علاوہ جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے حق میں نعرے بازی کرتے نظر آتے ہیں تاہم ان کے حقیقی سیاسی رویو ں سے کبھی جمہوری اقدارکی پاسداری کی جھلک بھی نظر نہیں آتی اور ان کی سیاست اکثر تحمل و برداشت‘باہمی مشاورت‘رواداری‘ تنازعات کے خوش آئند حل اور منصفانہ اور آزادانہ انتخابات جیسی جمہوری اقدار سے عاری نظر آتی ہے۔ سیاسی اختلافات باہمی نفرت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس سے جمہوریت کی روح او راصولوں کی نفی ہوتی ہے۔
سیاسی اور سماجی تنازعات ایسی ریاستوں میں جنم لیتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے یا سرے سے اس کاوجود ہی نہیں ہوتا۔متمول اور بارسوخ افراد قانون سے بالا تر ہوتے ہیں اور ایسی ریاست بااثر لوگوں پر ریاستی قوانین اور احکامات نافذ کرنے سے قاصر ہوتی ہے یا آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ عام آدمی کوریاستی مشینری کا قہر وغضب برداشت کرناپڑتا ہے جو عام شہریوں کو دبانے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے افراد کے حالات زیادہ دگرگوں ہوتے ہیں۔ ریاست ان کا تحفظ نہیں کرتی؛ چنانچہ انہیں ریاستی جبر یا طاقتور گینگز یا ریاست کے مافیا گروپس سے تحفظ کے لیے مجبوراً بااثر اور متمول افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔داخلی سیاسی اور سماجی بدنظمی اور انتشار کی ایک اور بڑی وجہ اچھی گورننس کا فقدان ہے۔اگر حکومت اپنے اقدامات کو یکجا نہیں کرسکتی‘ ریاستی امورسے مؤثر انداز میں نبردآزماہونے میں ناکام رہتی ہے تو ایسی سوسائٹی میں امن وامان‘حکومتی رِٹ اور استحکام برقرار رکھنے کی صلاحیت شدیدمتاثر ہوتی ہے۔ ایسی ریاستیں اکثر ایک غیر مؤثر اور ناپائیدارسیاسی اکائی میں بدل جاتی ہیں یوں وہ اپنے عوام اور سرزمین پرریاستی کنٹرول برقرار رکھنے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔اگر یہ ریاستیں اپنے شہریوں کو بنیادی خدمات اور ذاتی تحفظ ہی فراہم نہ کرسکیں تو انہیں ناکام یا ناکام ہوتی ہوئی ریاستوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حکومت میں پائی جانے والی کرپشن ہمیشہ بری گورننس کو جنم دیتی ہے۔ ریاستی ڈھانچے میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری حکام اور سیاسی رہنما اپنے منصب کو ذاتی اور مالی منفعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ریاستوں میں کوئی بھی کام کسی تگڑی سفارش یا رشوت کی ادائیگی کے بغیر نہیں ہوسکتا جو دراصل کرپشن کی ہی دوسری شکل ہوتی ہے۔ کئی بڑے کاروباری لوگ عملی طورپر سرکاری حکام یا سیاسی رہنمائوں کو رقوم کی مستقل ادائیگی کے ذریعے خرید لیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے بزنس امور آسانی سے نمٹانے میں حکومتی نوازشات میسر رہیں۔ جن ریاستوں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی یا اس کی گرفت کمزور ہوتی ہے وہاں کا عمومی چلن یہ ہوتا ہے کہ ریاست کے مالیاتی وسائل کا ذاتی منفعت کے لیے یا اپنے فیملی ممبرز اور دوستوں کو نوازنے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔مالی مفادات کے حصول کے لیے سرکاری تعمیراتی پراجیکٹس اور سرکاری محکموں کو اشیا اور سروسز کی فراہمی کے بڑے بڑے ٹھیکے من پسند افراد کو دیے جاتے ہیں۔
ایسی ریاستوں کی ایک اور نمایاں شناخت یہ ہوتی ہے کہ طاقتور بیوروکریٹس‘ملٹری اور سویلین اشرافیہ اور بڑے کاروباری لوگ جو غیر قانونی ذرائع سے دولت کماتے ہیں غیر قانونی حربوں کی مددسے اپنا سرمایہ بیرون ملک رکھتے ہیں۔وہ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں یا اپنی دولت غیر ملکی بینکوں میں رکھتے ہیں یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔بحرانوں اور کرپشن کے مارے ممالک میں ایک دلچسپ طریقۂ واردات یہ بھی ہے کہ بالادست اشرافیہ‘متمول افراد اور افسر اپنے بیٹوں کو مغربی ممالک میں سیٹل کرادیتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنی ”اوپر کی کمائی“ وہاں منتقل کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اگر انہیں کبھی قانونی یا انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑجائے تو انہیں ایک محفوظ ٹھکانہ بھی میسر ہو تا ہے۔
جب تک سیاسی کھلاڑی اور جماعتیں پاکستانی سیاست کی ماہیت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتیں اس وقت تک پاکستان میں استحکام آسکتا ہے نہ بحرانوں سے نمٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں کوئی مربوط اور ساز گار سیاسی نظام پروان چڑھ سکتا ہے۔ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ روزمرہ سیاسی امور میں جمہوریت کے اصول کی اس کی حقیقی روح کے مطابق پاسداری کی جائے۔ سیاست کو شائستگی اور باہمی احترام کا آئینہ دار ہونا چاہئے اورملکی مسائل کے حل میں رواداری اور مکالمے کو بروئے کار لایا جائے۔