مر کے بھی چین نہ پایا تو
دوسروں کی مُسکراہٹ چھین کر ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑے تیس مار خان ہیں ، ہم نے بڑا کوئی تیر مار لیا ہے۔ ہماری تو ہر طرف بلے بلے ہو جائے گی ، دیکھا ہم نے اُسے کیسا سب کے سامنے ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ۔ اب اس کی نسلوں کی بھی ہمت نہیں ہوگی ، ہمیں کبھی آنکھیں دکھانے کی ۔
محترم قارئین ہماری خصلت بن چکی ہے کہ ہم دوسروں کو مُضطرب کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتے ۔ محنت کش کو ہفتہ بھر کام کروا کے جب اُجرت دینے کی باری آتی ہے تو اکثر ٹھیکے دار اگلے ہفتے دوں گا کا کہ کر ٹال دیتا ہے ۔ جب اگلا ہفتہ مکمل ہوتا ہے تو ٹھیکے دار گھر کی کسی مجبوری کا بہانہ تراش کر مزدور کو ٹالتا ہے ۔ جب تیسرا ہفتہ اختتام پزیر ہوتا ہے تو کوئی اور بہانہ بنا کر مزدور کو مزید قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ، بالآخر مہینے کے آخری ہفتے میں آدھے پونے دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے ۔
اسی دوران مزدور کے گھر والے سسک سسک کر کبھی جی کبھی مر رہے ہوتے ہیں کیوں کہ اس اُجرت سے وہ بجلی و گیس کا بِل بھریں ، یا گھر کے اخراجات پورے کریں ، یا بچوں کی سکول کی فیس بھریں ، یا مریضوں کے لیے ادویات لائیں۔ یوں مزدور کی زندگی میں دن رات مشقت کرنے کے باوجود اندھیرا ہی اندھیرا رہتا ہے ۔
ویلڈنگ ورک شاپ ، گاڑی ، رکشہ اور موٹر سائیکل مکینک ، الیکٹریشن ، پلمبر اور درزی جیسے جُگاڑی اُستادوں کے پاس جب ہمارے بچے سیکھنے جاتے ہیں تو وہ وحشی ان سے جانوروں جیسا سلوک برتے ہیں ۔ جس سے بچے سکول کے بعد روزگار سیکھنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق سرکاری سکولوں میں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں ۔ جہاں پر اساتذہ کے خوں خوار رویے اور روزمرہ کی مار کُٹائی سے بچے اکثر سکول سے بھاگ جاتے ہیں ۔ بچوں کو مرغا بنا کر جس طرح ناقابلِ برداشت انداز میں مارا پیٹا جاتا ہے ، بچوں کی چیخیں ساتویں آسمان تک بلند ہونے کے باوجود بھی رحم نہیں کیا جاتا ہے ۔ رحم کیا بھی کیسے جاتا ہم نے کب دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد کے برابر سمجھا ہے ۔
کتنے اچھنبے کی بات ہے کہ میٹرک فیل طلبہ جیسے ہی اساتذہ کے طعنے سُن سُن کر کہ تم نے کھوتے ہی چرانے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو بڑے بڑے کاروبار کرتے پورے پورے نظام کو سنبھال رہے ہوتے ہیں ۔ جب کہ پڑھے لکھے فرد عموماً ڈگریاں لیے پہلے نوکری کی تلاش میں پھر رشتے کی تلاش میں بوڑھے ہو رہے ہوتے ہیں ۔
ہمارے مسلسل غیر معیاری رویوں ، غیر معیاری تربیت اور غیر معیاری تعلیم نے ہم سے آج الفتیں، عقیدتیں، اور احترام کے تمام رشتے چھین لیے ہیں ۔
ہمارے اساتذہ بڑے شاطر مزاج واقع ہوئے ہیں اول تو وہ پڑھاتے نہیں دوئم تربیت کے لیے ان کے ہاس ڈنڈے اور بد کلامی کے سوا کچھ نہیں ۔ والدین مزدوری کریں ، بچوں کی فیس بھریں یا گھر کو چلائیں ۔ ان سارے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے سرکار سے لینے والے اساتذہ کا نسلوں کے بگاڑ میں سو فی صد قصور ہے وہ تعلیم نہ سہی کم سے کم تربیت تو کرسکتے ہیں .
یہ تمام صورت حال فارسی کے اس مقولے کے مصداق تھے :
” چُو کُفر اَز کَعبہ بر خیزد کُجا ماند مسلمانی “
یعنی جب کعبہ میں ہی کفر ہوگا تو مسلمان بے چارہ کہاں جائے گا