معاشی عدم استحکام کی وجوہات

31

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کا رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں مالی خسارہ 4 ہزار 337 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ حکومتی آمدن 5 ہزار 313 ارب روپے ہے جب کہ اخراجات 9 ہزار 651 ارب روپے سے متجاوز ہو چکے ہیں جبکہ ملکی قرضوں پر واجب الادا سود کی مد میں 5 ہزار 517 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے علاوہ حکومتی اخراجات میں سرفہرست دفاع پر 12سو 22 ارب، ترقیاتی منصوبوں پر 454 ارب روپے کے اخرجات ۔ علاوہ ازیں سبسڈیز پر 473 ارب، پنشن ادائیگیوں پر 611 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ حکومت کے سول امور چلانے پر 9 ماہ کے دوران 518 ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ہوشربا اعداد و شمار پاکستانی معیشت کی حالت زار کا اظہار کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ میری نظر میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی چند نمایاں وجوہات ہیں:
حکومتی آمدن و اخراجات میں عدم توازن :
حکومتی اخراجات کے مقابل ٹیکس وصولیوں کا کم ہونا ، جسکو پورا کرنے کے لئے غیر ملکی قرضوں کی بھرمار جبکہ اخراجات کی مد میں غیر ملکی قرضوں پر سودپر خرچ ہونے والی رقم، دفاع، سبسڈیز اور پینشن کے اخراجات ۔ ڈوبی ہوئی معیشت میں حکومت وقت کے نہ ختم ہونے والے اللے تللوں کے اخراجات، وزراء کو تو چھوڑیں بڑے بڑے بیوروکریٹس کے پروٹوکول دیکھنے لائق ہوتے ہیں۔ کاش پاکستان کو قرضہ دینے والے اداروں کو غریبوں کو نچوڑنے کی بجائے اشرافیہ کے اللے تللوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کٹوتی کرنے کے احکامات صادر کرنے کی توفیق ہو۔
برآمدات و درآمدات میں واضح فرق :
پاکستانی معیشت درآمدی نوعیت کی ہے ۔ اوسطا 12سے 14ارب ڈالر کا سالانہ تجارتی خسارہ ملکی زرمبادلہ کو متاثر کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بسااوقات پاکستان جیسے زرعی ملک کو اپنی زرعی ضروریات پورا کرنے کے لئے گندم جیسی جنس بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔
سیاسی عدم استحکام:
اس وقت حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر براجمان ممبران اسمبلی بیک وقت عام انتخابات میں دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی نظام کس حد تک مستحکم ہے اسکا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک پاکستان کو کوئی منتخب وزیراعظم اپنے عہدہ کی آئینی مدت کو پورا نہیں کرپایا۔ ہر دو تین سال بعد ہماری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر رونق جمائے دیکھائی دیتی ہیں۔
دہشت گردی:
سویت یونین کی افغانستان پر یلغار سے لیکر امریکہ کی جارحیت تک جہاں افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے وہیں پر اسکے نہ ختم ہونے والے اثرات پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ کسی دور میں پاکستان کی مشرقی سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہوا کرتی تھی مگر آج پاکستان کی مغربی سرحد مشرقی سرحد سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔ آئے روز کی دہشتگری نے پاکستانی معیشت اور سیاحت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں نہ صرف پاکستان کے اربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں بلکہ لاکھوں پاکستانی لقمہ اجل بن گئے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری:
کسی بھی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا انحصار وہاں کے سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال کی مرہون منت ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی استحکام کے کیا ہی کہنے یہاں تو سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی راہ میں ابھی تک روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی بدولت ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کی بجائے دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے:
پاکستان ریلوے، پی آئی اے،این ایچ اے ، پاکستان اسٹیل ملز جیسے اداروں کے نہ ختم ہونے والے خساروں کا بوجھ ملکی معیشت کی کمر کو مسلسل توڑ رہا ہے۔
محکمانہ کرپشن :
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ کرپشن رپورٹ چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ پاکستان کے محکمے کس حد تک کرپشن کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔
ٹیکس چوری:
پاکستان کی کروڑوں کی آبادی میں صرف چند لاکھ افراد ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے تمام شہروں میں بڑے بڑے تجارتی مراکز میں اربوں روپے کا روزانہ کاروبار کرنے والے تاجروں میں صرف چند تاجر ہی ٹیکس نیٹ ورک کاحصہ ہیں۔ حقیقت حال یہی ہے کہ جو پاکستانی شہری ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ نہیں ہے وہ پرسکون زندگی گزار رہا ہے جبکہ جو شہری ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ بن جاتا ہے، حکومت وقت اسکو لیموں کی طرح نچوڑتی دیکھائی دیتی ہے۔
بجلی و گیس چوری:
آئے روزگردشی قرضہ کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ جبکہ حالت زار یہ ہے ہر شہر ہر گاوں میں بجلی کی تاروں پر سرعام کنڈے لگا کر سینہ تان کر بجلی چوری کی جاری رہی ہے۔ یہی صورتحال گیس چوری کی ہے۔ گیس و بجلی کے اہلکار سب جانتے ہیں کہ بجلی و گیس چوری کہاں کہاں اور کس طریقہ سے کی جارہی ہے۔یقینی طور پر بجلی و گیس چوری کی مد میں اربوں روپے کا نقصان نہ صرف پاکستانی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے بلکہ بجلی و گیس کے بلوں سے عوام الناس ذہنی مریض بنتی دیکھائی دے رہی ہے۔
اسمگلنگ:
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ناگزیر وجوہات کی بناء پر بھارت، ایران جیسے قریب ترین ہمسایہ ممالک سے تجارت نہیں کرسکتا ۔ پاکستان جن ہمسایہ ممالک سے قانونی طریقہ کار سے تجارت نہیں کرتا مگر انہی ہمسایہ ممالک سے اسمگلنگ عروج پر ہے۔ اسمگلنگ کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان پاکستانی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں دو بڑی سیاسی حریف جماعتیں جس طرز پر میثاق جمہوریت پر اکٹھی ہوئیں، اس طرز پر تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت پر اکٹھا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں طویل مدتی معاشی پالیسیوں کا نفاذ کیا جائے۔میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ تاکہ ہر نئی حکومت معاشی پالیسیوں کو لیکر چلے ۔ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بہتر کیا جائے۔محکمانہ کرپشن اور بجلی گیس چوری اور ٹیکس چوری جیسے جرائم پر ملکی قوانین کے مطابق سزاؤں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔قرضوں کی بجائے دوست ممالک کی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے۔خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے۔پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہیں اور ایگزیکٹوزکےدائرہ اختیار میں مداخلت نہ کریں۔حکومتی شہ خرچیوں کو ختم کیا جائے۔ یاد رہے سیاسی استحکام ہی معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.