عجیب سی چپ کی خالق عجوبہ ء روزگار شاعرہ

84

تحریر: منشاقاضی

مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا کہ تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت پوست ہے ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اصل کو چھوڑ کر نقل کے پیچھے دوڑ رہے ہیں آنکھ کا یہ دھوکہ جو ہمیں ہر ایک کے پیچھے لگائے ہوئے ہے ۔ یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ احتیاط و محتاط کے اس حساس دور میں انسان تنہا ہو کر رہ گیا ہے اور بقول ظفر خان نیازی کے

لوگوں کو احتیاط نے پتھر بنا دیا

آواز دو تو مڑ کے کوئی دیکھتا نہیں

لوگ احتیاطی اور محتاطی قلعوں میں محصور ہو گئے ہیں اس حالت میں لوگوں کو ملنے اور مل بیٹھنے بھی کوئی نہیں دیتا اس تنہائی کے تپتے ہوئے صحرا میں سی ٹی این اور حلقہ توقیر ادب باد صبح گاہی کا خوشگوار جھونکا ہیں ۔ آج امریکہ میں مقیم عجوبہ ء روزگار شاعرہ فرح اقبال جو زندگی بسر کر رہی ہے عمر نہیں گزار رہی کیونکہ عمر سو کر اور زندگی جاگ کر گزارنی پڑتی ہے ۔ فرح کی کتاب کی تقریب رونمائی میں اہل دل اور مثبت سوچ رکھنے والی جلیل القدر شخصیات سے ملنے کا شرف حاصل ہوا حلقہ توقیر ادب اور سی ٹی این کے زیر اہتمام عجیب سی چپ کتاب کی تقریب رونمائی زیر صدارت جناب غلام حسین ساجد انعقاد پذیر ہوئی نقابت و نظامت جناب نواز کھرل کی دل نواز اداوں اور خوبصورت اسلوب و بیان سے مزین تھی ۔ حلقہ توقیر ادب کے بانی جن کی طبع کی روانی شعر و ادب کی زمینوں کو سرسبز و شاداب کرتی ہے میری مراد جناب توقیر احمد شریفی سے ہے ۔ آپ نے موصوفہ کا مکمل تعارف کرایا ۔ فرح اقبال اپنی ذات میں بے شمار محاسن کا مجموعہ ہے ۔عربی زبان میں آفتاب مونث ہے اور مہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کا کام بہت ہے فرح اقبال کا کلام بولتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ دلوں میں سیدھا اتر جاتا ہے ۔ فرح اقبال کا شمار دنیا کی چند چوٹی کی عظیم شاعرات میں ہوتا ہے ۔ جن کی شاعری پسند کی جاتی ہے ۔

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی

ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے

دوسروں کی قسمت کا حال بتانے والی فرح کی قسمت پر رشک آتا ہے ۔ فرح کا اقبال بلند اور سوچ کے بطن سے تقدیر پھوٹتی ہے ۔ فرح اقبال کا تقدیر اس لیے ساتھ دیتی ہے کہ وہ مسلسل کوشش اور جد و جہد کرتی ہے ۔ فرح کی فہم و فراست کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ قسمت اس کا ساتھ دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہے قسمت کا تالا تو ہر ایک کے پاس موجود ہے لیکن اس کی چابی کسی کسی کے پاس ہوتی ہے اور محنت کی چابی سے ہی قسمت کا تالا کھلتا ہے ۔ فرح اقبال ایک کامیاب ۔ کامران اور شادمان شاعرہ ہے ۔ وہ جہاں بھی جائے گی قسمت کی دیوی اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ رکھے گی کیونکہ فرح ایک مطمئن دل لے کر پیدا ہوئی ہے اور اس کا دل آج بھی مطمئن ہے اس لیے کہ

مطمئن دل ہو تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت

دل اجڑ جائے تو شہروں میں تنہائی بہت
اعصائے موسی ہر ایک کے پاس ہے مگر وہ رسیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہیں ۔ فرح کا اعصاء رسیوں کو کھا جاتا ہے ۔

فرح اقبال نے اپنے دل کو خوبصورت خیالات اور خوبصورت انمول الفاظ کی مالا سے مالا مال رکھا ہوا ہے ۔ میں نے اب تک جتنی بھی شاعرات یا شاعروں کی کتابوں کی تقریب رونمائی میں شرکت کی ہے میں نے ان کو سٹیج پر فرح اقبال کی طرح مطمئن نہیں دیکھا ۔ ان کی بیقراری اور ان کی بے چینی ان کے چہرے سے صاف پڑھی جاتی تھی ۔ میں توقیر احمد شریفی صاحب اور محترمہ فردوس نثار اور سی ٹی این اور توقیر ادب لاہور کی تمام ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اتنی خوبصورت تقریب اور دل نواز نظامت و نقابت کی صدائے بازگشت ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہے گی اور ایک گونا مسرت آلود ماحول میں لے جائے گی ۔ مسرت دائمی اور لذت عارضی ہوتی ہے ۔
افضال فردوس رقم طراز ہیں کہ فرح اقبال کی شاعری کے سوتے اساطیر سے پھوٹتے اور زمان و مکان کی قید سے ماورا وقتوں ۔ زمانوں اور صدیوں میں بہتے ہیں ایک طرف اس کی غزل روائتی غزل کی زرخیز زمین سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس کی نظمیں دھرتی سے اوپر اٹھ کر کائنات کے اسرار رموز سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ ناشر خوبصورت لہجے کے شاعر جناب خالد شریف نے فرح اقبال کے بارے میں کہنے سے قبل ہال آف فیم کے محرک و خالق اور سی ٹی این کے سربراہ جناب مسعود علی خان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ مسعود علی خان کی کاوش کو حکومت عملی جامہ پہنا دیتی تو پوری دنیا میں پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوتا اور ٹولٹن مارکیٹ آج عجوبہ روزگار عجائب گھر میں بدل چکی ہوتی جہاں پر پاکستان کی عبقری عسکری ۔سماجی ادبی فنون لطیفہ سے متعلق شخصیات کے حالات زندگی ان کی قد آدم تصویروں کے ساتھ آویزاں ہوتے ۔ واقعی جناب مسعود علی خان نے فنون لطیفہ کی ہر اصناف سے انصاف کیا ہے آپ کا نام پرورش لوح و قلم کرنے والوں میں شمار ہوگا ۔ تاریخ خدمت کرنے والوں کے نام اپنے دامن میں محفوظ رکھتی ہے حکومت کرنے والوں کے نام سے بیزار ہے ۔ ہاں اگر حکومت بھی خدمت کر رہی ہو تو حکومت کا نام بھی تاریخ کے رخ تاباں پر تابندہ رہتا ہے ۔ میری تمام عبقری شخصیات سے استدعا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے مسعود علی خاں کے نہ صرف ہاتھ مضبوط کریں بلکہ پاؤں بھی مضبوط کریں کیونکہ پاؤں کی مضبوطی کا تعلق ثبات قلب سے ہے جناب خالد شریف نے کہا کہ فرح اقبال ملک سخن کی شاہزادی ہے اس کی شخصیت کئی جہتوں میں منقسم ہے وہ ایک کامیاب اور مشاق ٹیلی کاسٹر ہے کیمرے کی آنکھ روشن ہوتے ہی اس کا دریچہ ء دل وا ہو جاتا ہے اس کی فراخ آنکھیں سامنے بیٹھے ہوئے فرد کے ذہن میں اتر کر ساری ان کہی سمیٹ لاتی ہیں اس سے قسمت کا حال پوچھنے والوں کی ایک لمبی فہرست آن لائن ہوتی ہے اس ساری شہرت کے حصول کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت سی دوسری کامیاب اینکرز کی طرح اسے شاعری کی ضرورت ہی نہ ہوتی لیکن کیا کیا جائے کہ شاعری فرح کی روح میں بستی ہے وہ اول و آخر شاعرہ ہے وہ اپنی دیگر مصروفیت و مشاغل سے شاعری کے تجربات کشید کرتی ہے اور انہیں انتہائی سلیقے اور خوبصورتی سے صفحہ ء قرطاس پر بکھیر دیتی ہے اس کا مشاہدہ حیرت انگیز ہے جس کا ثبوت اس کے تازہ ترین شعری مجموعے ۔ عجیب سی چپ میں جا بجا ملتا ہے ۔ اس کتاب کی سادہ سہل مگر مرصع شاعری دلوں کے تار چھیڑتی ہے وہ اپنے کلام کو گنجلک تراکیب و الفاظ سے بوجھل نہیں کرتی سیدھی اور سچی بات کرتی ہے جو براہ راست دل میں اتر جاتی ہے ۔ ویسے بھی ایک خطیب کان کے ذریعے سامعین کے دلوں میں اترتا ہے مگر شاعر کو یہ فضیلت اور فوقیت حاصل ہے کہ وہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے ۔

تم آئے ہو زمانے کی راہ سے

وگرنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

فرح اپنی شاعری کے بارے میں بلند بانگ دعوے نہیں کرتی بلکہ غوغائے رقیباں سے بے نیاز خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہتی ہے کتاب کے نام کی طرح عجیب سی چپ کی شاعری بھی اپنا انفرادی لہجہ رکھتی ہے فرح اقبال کی یہ کتاب شمالی امریکہ اور دنیا بھر کے ادب دوستوں کے لیے سال رواں کا بہترین تحفہ ہے ۔ فرح اقبال کی دوسری کتابیں دل کا موسم کوئی بھی رت عجیب سی چپ کلام اور کتاب ریختہ پر موجود ملکی غیر ملکی مشاعرے پڑھے اسی مہینے ساکنان شہر قائد مشاعرہ کراچی پڑھا اور بہت داد پائی ۔ ایک منٹ ان لوگوں سے داد پائی جو خود اپنے آپ کو بھی داد دینے میں بخیلی سے کام لیتے ہیں۔ فرح نے کراچی والوں کو لوٹ لیا ۔ فرح اقبال وائس پریزیڈنٹ پاکستان چیمبر آف کامرس یو ایس اے کی کلیدی عہدے پر فائز ہیں اس کے علاوہ فرح اقبال کے قرطاس اعزاز پر تعلیمی اعزازات جو ثبت ہیں ان میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایڈورٹائزنگ گرافک ڈیزائنگ میں ماسٹرز کی ڈگری کراچی سے ملٹی میڈیا میں ڈپلومہ فی الحال ہیوسٹن ٹیکس یو ایس اے میں 24 سال سے رہ رہی ہیں اور ریجنل ڈائریکٹر ٹی وی ون یو ایس اے ٹیکساس 13 سال سے ٹی وی ون یو ایس اے ہر ہفتہ وار لائیو شو کی میزبانی کرنے والی اینکر پرسن لائیو فرح ٹی وی ون یو ایس اے برائے ٹی وی شو قسمت کا حال کی میزبان کے سال مکمل تین پانچ طور پر ہوئے سابق چیئر پرسن ایجوکیشن کمیٹی پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹر ہوسٹن دو بار یہ ہوسٹن میں بہت سی مختلف تنظیموں کے ساتھ رضاکارانہ کام کر رہی ہیں ۔ آخر میں اپ نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا اور سامعین سے بے پناہ داد وصول کی ۔

فرح اقبال غزل سرا تھی سامعین بڑے شوق سے سن رہے تھے اور داد بھی دے رہے تھے۔ سامعین میں ملک کے نامور شاعر شعیب بن عزیز بین الاقوامی شہرت یافتہ کارٹونسٹ جاوید اقبال ۔ مکک کے نامور شاعر جناب عرفان صادق۔ جناب علی صدف۔ سی ٹی این کے ممتاز اراکین جناب فیاض احمد ۔ ڈاکٹر خالد سعید ۔ محترمہ فردوس نثار جنرل سیکرٹری سی ٹی این جنہوں نے خیر مقدمی کلمات کہے ۔محترمہ شازیہ مفتی ۔ محترمہ نیلم بشیر ۔ مصور خطاط ہارون رشید ۔ فرحان یوسف اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی نابغہ روزگار شخصیات موجود تھیں ۔ صاحب صدر استاد شاعر غلام حسین ساجد جن کو پوری دنیا میں سنا جاتا ہے خاص طور پر امریکہ میں آپ کے مداحین کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے عزیز از جان عزیز جہاں اور بے رحم نقاد غافر شہزاد کی ستائش سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ نے فرح اقبال کی شاعری کو اعتبار و سند بخشی اور بے پناہ پسندیدگی کا اظہار کیا ۔حلقہ توقیر ادب کے سربراہ توقیر احمد شریفی مکرر مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی مثبت حکمت عملی کے بطن سے روح افزا ماحول تشکیل پایا ۔ توقیر احمد شریفی نے سی ٹی این کے سربراہ مسعود علی خاں کی دورس نگاہ کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ فرح اقبال کو سنیئے اور دیر تک سر کو دھنیئے ۔ میجر مجیب آفتاب ان کی بیگم صاحبہ عذرا آفتاب ائر کموڈور خالد چشتی۔ انجینیئر شائلہ صفوان اور جواں سال ماہر تعلیم فہد عباس کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ۔
آخر میں فرح کو سنیئے

زمانہ جھک گیا ہوتا اگر لہجہ بدل لیتے

مگر منزل نہیں ملتی اگر راستہ بدل لیتے

بہت تازہ ہوا آتی بہت سے پھول کھل جاتے

مکان دل کا تم اپنے اگر نقشہ بدل لیتے

خطا تم سے ہوئی آخر تمہارا کیا بگڑ جاتا

یہ بازی بھی تمہاری تھی اگر مہرہ بدل لیتے

ابھی تو آئینے سے ہے مسلسل دوستی اپنی

شناسائی کہاں رہتی اگر چہرہ بدل لیتے

میرے حرفوں کے یہ موتی میرے ہاتھوں بکھر جاتے

غبار بے یقینی میں اگر راستہ بدل لیتے

فلک کے اس کنارے کا وہ لمحہ ہم کو مل جاتا

ملا تھا ایک ہی لمحہ۔ اگر لمحہ بدل لیتے

بہت بے رنگ چہروں پربہت سے رنگ آ جاتے

کسی اچھے فسانے سے اگر قصہ بدل لیتے

اسی خواہش کے دامن میں وہی سکے کھنک اٹھتے

صدا تبدیل کر لیتے اگر کاسہ بدل لیتے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.