معاشی ترقی: سیاسی استحکام سے مشروط

52

یہ بات خوش آئند ہے کہ وطن عزیز میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔
حالیہ انتخابات میں عوام کی بھرپور دلچسپی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری جمہوری عمل کے تسلسل پر یقین رکھتا ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
اس تناظر میں ارباب اختیار کو چاہیے کہ نہ صرف عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں بلکہ انہیں درپیش مسائل کے حل کے لئے وقت ضائع کئے بغیر مخلصانہ کوششیں کریں تاکہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔
اسی تناظر میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاشی ترقی کا عمل اسی صورت کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے
جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور سیاسی استحکام تبھی ممکن ہے
جب تمام سیاسی پارٹی کی قیادت اور کارکن ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔
اختلاف رائے جمہوری عمل کا حسن ہے، یہ حسن برقراررہے گا تو اقوام عالم ہمیں مہذب شہری تسلیم کریں گی، انتہا پسندی کسی بھی نوعیت کی ہو نقصان دہ ہوتی ہے

اس سے ملک میں انتشار کی راہ ہموار ہوتی ہے اور ترقی کا عمل متاثر ہونے کے خدشات سر اٹھانے لگتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اور اپوزیشن ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچنے والے خطرات کو پنپنے نہ دیں۔
ایک دوسرے پرالزام تراشی سے گریز کریں، قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی اور پارٹی مفادات کو ترجیح نہ دیں۔ اختلاف رائے کی صورت میں ایک دوسرے کی بات ٹھنڈے دل سے سنیں
اور دلائل کی روشنی میں مہذب انداز میں ہر سوال کا جواب دیں تاکہ ملک میں باہمی رواداری کو فروغ نصیب ہو۔
اس میں شک نہیں کہ ملک اس وقت گھمبیر مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے
ساتویں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور لاقانونیت کے باعث ہر شہری خاص طور پر خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
عوام کو درپیش ان کا حل حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے تاکہ مسائل کے حل کی تدبیر ہوسکے۔
مہنگائی اور بے روزگاری ایسے مسائل کے حل کے لئے ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیوں کے بجائے
ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ایسے اقدامات جن سے معیشت مضبوط ہو اور
ملک پر قرضوں کا بوجھ کم ہوسکے۔
اس حوالے سے بحیثیت قوم ہمیں دستیاب وسائل سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جب تک ہم قرض کی مے نہیں چھوڑیں گے۔ ملک قرضوں سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔
ماضی میں کیا ہوا، کس نے کیا کیا، ہمیں اس بحث میں وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھنا ہوگا
جو بھی اقتدار ہوتا ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو دانش مندی اور باہمی مشاورت سے حل کرے۔
میاں شہباز شریف کا بطور وزیراعظم انتخاب خوش آئند ہے۔ اس لئے کہ اختلافات کے باوجود
بھی ان کے سیاسی حریف ان کے جذبہ حب الوطنی اور شبانہ روز محنت کے معترف ہیں۔
یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اگلے پانچ سال انہیں دلجمعی سے کام کرنے دیا گیا
تو وطن عزیز کو درپیش چیلنجوں سے چھٹکارامل سکتا ہے
کہ میاں شہباز شریف نہ صرف درپیش مسائل کو سمجھتے ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کی
اہلیت اور تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ملک کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنانے کے لئے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کریں۔
ان کے دست و بازو بنیں تاکہ ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہواور ترقی کا عمل آگے بڑھ سکے۔
یہ حقیقت ہے سیاسی کھنچا تانی سے ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ سیاسی کشیدگی برقرار رہی
تو پاکستان کو معاشی لحاظ سے مزید کمزور کرنے کا عالمی ایجنڈا مزید آگے بڑھنے کا اندیشہ موجود رہے گا۔
اس عالمی ایجنڈے کا توڑ یہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔
سیاسی مسائل پارلیمنٹ کے اندر حل کریں۔
اتفاق رائے سے ایسی قانون سازی کریں کہ قومی ادار ے اپنی حدود میں رہیں۔ اختیارات کا ناجائز استعمال ہمیشہ انصاف کے قتل اور ظلم کو ہوا دینے کا باعث بنتا ہے۔
یہ ایسی صورت حال ہے جس کا حل پارلیمنٹ کے اندر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک باہمی رواداری کو فروغ دینے کا سوال ہے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو
اس سلسلے میں پہل کرنی چاہئے اگر ملک میں سیاسی فضا بہتر ہوگی تو انہیں سکون سے کام کرنے کے مواقع میسر آسکیں گے۔
بہتر ہوگا کہ اپوزیشن حکومت کے لئے مسائل کھڑے کرے نہ ہی حکومت اپوزیشن کو کارنر کرنے کی کوشش کرے
ایسا ہوگا تو ملک میں سیاسی استحکام ہوگا
بصورت دیگر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.