پاکستان میں علم کی کمی اور حکومت کی بیکار پالیسیاں
تحریر: محمد عمیر خالد
ریاستِ پاکستان میں تعلیم زوال کا نہیں بلکہ پسماندگی کا شکار ہے۔ آج ہمارے ملک میں ماضی کی نسبت سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بہت زیادہ ہیں۔ جبکہ ان تعلیمی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی بھی ماضی کی نسبت تعداد بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال کے مطابق پاکستان میں تعلیمی زیور کو زوال پذیر اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے پاکستان میں تعلیم کا عروج ہی نہیں ہوا اور عروج سے پہلے تعلیم کا زوال۔ ہاں البتہ پاکستان میں آج حکومت نے جو تعلیم کا بد تر حال کر دیا ہے۔ اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے آج پاکستان میں تعلیمی ابتری پر مزید زوال کا خدشہ ضرور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہ تمام اپنی مادری اور قومی زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ ریاستِ پاکستان میں حکمرانوںنے آج بھی انگریزوں کی غلامی کو اپنایا ہوا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے ملک پاکستان میں انگریزی کا سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عام ہونا ہے جبکہ ہماری مادری زبان پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو ہے۔ اور ہماری قومی زبان اردو ہے جس کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آئین پاکستان میں باقاعدہ طور پر پاکستان کی قومی و سرکاری زبان قرار دیا تھا اور آج بھی اگر ہم آئین پاکستان کا مطالعہ کریں تو میری اس بات پر قائرین کو یقین ہو جائے گا کہ ہماری قومی و سرکاری زبان اردو ہی ہے۔
ریاستِ پاکستان میں جادوئی طاقتوں اور محب وطن پیارے سیاستدانوں و حکمرانوں کی دنیاوی غلامی کی وجہ سے ہم لوگ اپنی مادری و قومی زبانوں سے بہت دور ہیں۔ میرے خیال میں ریاستِ پاکستان میں تعلیم و علم کی کمی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
آج ریاستِ پاکستان میں نظامِ تعلیم کوئی علمی تحریک پیدا کرنے سے اس لیے بھی قاصر ہے کہ پاکستان میں علم اور تعلیم کو ہوا بند شعبوں میں اس طرح بانٹ دیا گیا ہے کہ علم جیسے زیور سے ہماری آنے والے اور موجودہ نسلیں بجائے ترقی کے پسماندگی کی طرف جا رہی ہیں۔ میری یہ بات یاد رکھئے گا جب لوگ رشوتیں دے کر بیمانی سے اور دو نمبر جعلی ڈگریاں حاصل کر کے ملک کے حکمران بنا دیئے جائیں گے تو ایسے ملک میں علمی ترقی کی بجائے علمی بربادی ہی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج دن تک صرف اور صرف افواجِ پاکستان ہی اور مارشل لاء کے ادوار ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں اگر کوئی ادارہ سب سے بہترین انداز میں چلایا جا رہا ہے چاہے وہ دکھاوے کے لیے ہی کیوں نہ ہو وہ صرف اور صرف افواجِ پاکستان ہی ہیں۔
آج کا دور پوری دنیا کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ غیر صنعتی اور غیر تعلیم یافتہ کوئی بھی ادارہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کی بنیادوں میں ہی جھوٹ، فریب، فراڈ، دھوکہ بازی، بیمانی اور غداری شامل ہوتی ہے۔ اگر میں غلط نہیں تو میرے ناقص علم کے مطابق یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب تک آپ کے گھر کا سربراہ ہی ٹھیک نہیں ہو گا تب تک آپ کی نسل ٹھیک نہیں ہو سکتی بجائے ٹھیک ہونے کے وہ گھرانہ تباہی اور بربادی کی طرف چلا جائے گا اسی طرح ہمارا ملک بھی ہے جب تک ملک کے حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس اور خفیہ جناتی طاقتیں ٹھیک نہیں ہوں گی تو ملک ترقی کرنے کی بجائے تباہی اور بربادی کی طرف ہی جائے گا۔
پاکستان میں نصابِ تعلیم کی بے ثمری اور تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ ہی ہمارے نصابِ تعلیم میں آئینِ پاکستان شامل ہے، نہ ہی تازراتِ پاکستان شامل ہے اور سب سے شرم والی بات یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر رکھی گئی مگر ہمارے تعلیمی نصاب میں آقائے دو جہاں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی شامل نہیں۔ ہاں البتہ پاکستانی حکمرانوں نے غلامی کا پٹا اپنے گلوں میں اس قدر ایمانداری سے باندھا ہوا ہے کہ پورے کا پورے نصابِ تعلیم اور قومی و سرکاری زبان انگریزی کو ہی قرار دیا ہوا ہے۔
تعلیم میں مرکزی حیثیت استاد کی ہونی چاہیے؟ طالب علموں کی ہونی چاہیے؟ یا نصاب تعلیم کی ہونی چاہیے؟ اس سلسلے میں بھی ہمارا نظامِ تعلیم عامرانہ رویوں کا شکار ہے۔ استاد اور نصاب بچوں کے لیے ہوتے ہیں جبکہ تعلیم حاصل کرنے کا مرکز طالب علم ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ شعبہ تعلیم کا مقصد محض بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہی نہیں ہوتا، تعلیم کا مقصد طالب علموں میں علمی و ادبی وجدان سے اُن کی روح اور شخصیت کی تہذیب کا اعلیٰ معیار بلند کرنا ہوتا ہے۔
آج ریاستِ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ اتنا طبقاتی اور اتنا فیوڈل ہو چکا ہے کہ اس میں اکثر و بیشتر گھرانے گزارہ حد سے بھی نیچے رہتے ہیں۔ آج چھوٹے چھوٹے بچوں سے مزدوری کروانا غریب عوام کی مجبوری بن چکا ہے جس کی وجہ سے بے شمار چھوٹے چھوٹے بچے سکولوں کا منہ ہی نہیں دیکھ پاتے اور اس طرح ہماری موجودہ اور آنے والی نسل دن بہ دن تباہی کی دلدل میں ہی دھنستی چلی جا رہی ہے۔ کہنے کو تو ہمارے پاس وسائل کی بہت کمی ہے ہاں البتہ سیاست دانوں، حکمرانوں، بیورو کریسوں، بد معاشوں، چوروں، ڈاکوؤں، لیٹروں اور غداروں کے لیے اس ملک میں کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں۔ کیونکہ ان محب وطنوں کو ریاستِ پاکستان اور پاکستان کی غریب و عام عوام سے کوئی سر و کار نہیں ہاں اگر سر و کار ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی گریبانوں سے جو کہ میرے نزدیک ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ پوری ایمانداری کے ساتھ بیمانی، زیادتی در زیادتی اور غداری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔