تربیت اور ماحول

36

تحریر ؛، جاویدایازخان
وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی فقیر بات ہی نہیں سن رہا تھا ٓاخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا ہاں بول کیا کہنا ہے ؟ وزیر نے ہاتھ جوڑے اور بتانا شروع کیا ایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول ؟ میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت جبکہ میں نے جلدی میں کہا جناب ! ماحول ، ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہے بادشاہ سلامت نے ہماری طرف رعونت سے دیکھا اور فرمایا تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا جو ثابت نہ کر سکا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور اس کے لئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی ، ہم دونوں اپنے جواب کی عملی تعبیر تلاشنے میں لگ گئے ، میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آٓرہا تھا ، کہ 24 دن بعد اچانک میرے ہم منصب وزیر نے میری موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے دربار میں اپنے جواب کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت چاہی ، اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی تالی بجتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آیا کہ بادشاہ سمیت تمام اہلِ دربار کی سانسیں سینہ میں اٹک گئیں، دربار کے ایک دروازے سے 10 بِلیاں منہ میں پلیٹیں لئے جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں تھیں ایک قطار میں خراماں خراماں چلتی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں، نہ پلیٹیں گریں اور نہ موم بتیاں بچھیں، دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا ، میرے ہم منصب نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، حضور ! یہ سب تربیت ہی کا کمال ہے کہ جس نے جانور تک کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنادیا ، بادشاہ نے میری جانب دیکھا مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی میں دربار سے نکل آیا تبھی ایک شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرے مسئلے کا حل آپ کے پاس ہی ہوسکتا ہے میں 2 دن کی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں، دی گئی مدت میں سے 4 دن باقی ہیں اب میرا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے،فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا واپس جاو اور بادشاہ سے کہو کہ 30 ویں دن تم بھرے دربار میں ماحول کی افادیت ثابت کرو گے وزیر بولا مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا جناب اس وزیر نے لا چارگی سے کہا تو بزرگ بولے تم تسلی سے اپنے گھر واپس جاو آخری دن مَیں خود دربار میں آوں گااس پر فقیر نے سر جھکائے ہوئے کہابہت بہتر جناب اور وزیر مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیا مقررہ مدت کا آخری دن تھا دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتی تھیں کہ اچانک ایک مفلوک الحال سا شخص اپنا مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا ، بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، وقت کم ہے میں نے واپس جانا ہے اس وزیر سے کہو تربیت کی افادیت کا ثبوت دوبارہ پیش کرے، تھوڑی دیر بعد ہی دوسرے وزیر نے تالی بجائی اور دوبارہ وہی منظر پلٹا ، دربار کے دروازہ سے 10 بلیاں اسی کیفیت میں چلتی ہوئی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں ، سارا مجمع سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا ، جب بلیاں عین دربار کے درمیان پہنچیں تو فقیر آگے بڑھا اور ان کے درمیان جا کے اپنا تھیلا اُلٹ دیا ، تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے اور دربار میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے، بلیوں کی نظر جیسے ہی چوہوں پر پڑی انہوں نے منہ کھول دیئے پلیٹیں اور موم بتیاں دربار میں بکھر گئیں، ہر طرف بھگدڑ مچ گئی بلیاں چوہوں کے پیچھے لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں، لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے دربار کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا، فقیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا بولا آپ کسی جنس کی جیسی بھی اچھی تربیت کر لیں اگر اس کے ساتھ اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی ۔ کامیاب کردار کے لئے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے ، اس سے پہلے کہ بادشاہ اسے روکتا فقیر دربار کے دروازے سے نکل گیا تھا۔ وہ تو بادشاہ تھا اور بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتے ہیں ۔ یہ کہانیاں اور حکایات دراصل کسی بھی اہم معاملے یا مسلے کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کے لیے ہوتی ہیں ان میں چھپا سبق ہر فرد اپنی سمجھ اور سوچ کے مطابق لیتا ہے درحقیقت آج ہمارے معاشرے میں ماحول اور تربیت دونوں کا شدید بحران پایا جاتا ہے جبکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوے ہیں دراصل اچھی تربیت سے اچھا ماحول تکمیل پاتا ہے اور اچھے ماحول میں تربیت پروان چڑھتی ہےدونوں کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں سمجھا یہی جاتا ہے گھر ہمیں ماحول فراہم کرتے ہیں اور ہمارے مدرسے ہماری تربیت کا فرض ادا کرتے ہیں ہمارے ہاں تربیت کی ساری ذمے داری استاد  پر ڈال دی جاتی ہے گھروں کا کیا ماحول ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔آج معاشرے میں تربیت کا جو فقدان نظر آتا ہے اسکی وجہ ہمارے گھروں کا وہ ماحول ہی تو ہے ۔ہمیں ماحول اور تربیت کے نازک فرق کوو سمجھنا ہوگا اور ان کے باہمی رشتے کا ادراک کرنا ہوگا ۔انسان ایک خاندان میں پیدا ہوتا ہے اوراس میں پرورش پاتا ہے اپنی زندگی کے ابتدائی سیکھنے والے سال اس ماحول میں گزارتا ہے اس کی ذات ،عادات اور فکر کی تشکیل اسی خاندان میں ہوتی ہے جب وہ دوسروں کے ساتھ معاملات اور برتاو کرتا ہے در حقیقت وہ اپنی خاندان سے حاصل کی ہوئی خصوصیات و تربیت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ایسی کہانی کو معیار یا پیمانہ بناکر جب ہم زندگی کے مختلف شعبوں اور لوگوں میں جاتے ہیں تو ہمیں ان کے رویے برتاو اور ردعمل سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ تربیت کا فقدان ہے یا واقعی تربیت کا حق ادا کیا گیا ہے ۔آج کل ہم اس تجربے اور مشاہدے سے شب وروز گزرتے ہیں جب لوگ ذرا سی بات پر اس لیے بدزبانی ،الزام اور تہمت پر اتر آتے ہیں کہ آپ کی سوچ ان سے الگ اور مختلف ہے اور وہ اور آپ مختلف شخصیات کو پسند کرتے ہیں جونہی ماحول بدلتا ہے پھر بھائی بھائی بن جاتے ہیں دراصل ان کی تربیت وہی رہتی ہے صرف ماحول بدلتا ہے ۔ مقام حیرت یہ ہے کہ لوگ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر سیاسی رہنماوں کو نازیبا القاب اور نام دیتے ہیں برے اور کھٹیا ناموں سے پکارتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو کو نیلام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور جونہی ماحول بدلتا ہے سب بھول بھال کر اکھٹے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔یہی بنیادی فرق ہے تربیت اور ماحول کا کہ چیزیں لمحوں میں بدل جاتی ہیں ۔شاید ہماری سیاسی تربیت کچھ اور ہوتی ہے جبکہ ہمارا سیاسی ماحول کچھ اور ہی بتا رہا ہوتا ہے ۔ہمیں ماحول اور تربیت دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ماحول کی ابتد ماں کی گود اور خاندان کے رویوں سے شروع ہوتی ہے اور تربیت کی ابتدا ء مدرسے یا اسکول کے پہلے دن سے سمجھی جاتی ہے کہتے ہیں کہ کسی کی تربیت کا اندازہ لگانا ہو تو اسکے اساتذہ اور اتالیق سے لگتا ہے اور ماحول کا پتہ اسکے والدین ، گھر ،خاندان ،سوسائٹی ،اور دوستوں کے رویوں سے ہوتا ہے ۔تربیت کی کامیابی کے لیے ایک اچھے ماحول کی ضرورت بہت اہم ہوتی ہے اگر اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو اچھی سے اچھی تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.