بابا فرید یونیورسٹی کا قیام

56

تحریر محمد جمیل فریدی

پنجاب اسمبلی سے پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کی قرار داد منظور

برصغیر میں چشتیہ سلسلہ کی معروف روحانی شخصیت ،صوفی بزرگ، قطب القطاب ، شیخ بحرو بر ، زہد انبیاء ، پیر طریقت ، رہبر شریعت پنجابی زبان کے پہلے پنجابی صوفی شاعر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت سے پوری دنیا میں اپنی شہرت اور بلند مقام رکھتاہے

اجودھن کے نام سے مشہور شہر کو بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری کے بعد پاکپتن کا اعزاز حاصل ہوا

آپ کی تشریف آوری سے قبل یہ خطہ جہالت کا گہوارہ تھا یہاں کی تمام جنگجو اقوام ہمہ وقت آپسمیں جنگ و جدل میں مصروف رہتی تھیں بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حسن اخلاق ، محبت اور تعلیمات اسلام سے ان جنگجو اقوام کو مشرف بہ اسلام فرمایا اور انھیں شیرو شکر فرمایا

پاکپتن بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے طفیل اس خطے کی پہلی اسلامی درسگاہ قرار پایا
آپ نے جماعت خانہ فریدیہ کے نام سے منسوب روحانی ، فلسفہ منطق عصری تقاضوں کے مطابق ابتدائی درسگاہ قائم کی

علم و ادب میں بھی پاکپتن کو ایک منفرد اور اہم مقام حاصل تھا

یہ عظیم درسگاہ جہاں حصول دین کی خاطر پوری دنیا سے توحید اور سنت کے طالب پاکپتن تشریف لاتے تھے ابتدائی طور پر اس دینی ،شرعی اور تصوف سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی آف دہلی ہندوستان ، مولانا بدر الدین اسحاق ، حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری آف کلیئر شریف ہندستان , حضرت جمال الدین ہانسوی ہانسی شریف ہندوستان، حافط خواجہ سید حسن شاہ المعروف منگو پیر آف کراچی اور دیگر اولیائے کرام شامل ہیں

آپ کی دینی و روحانی فیوض و برکات کا فیض ہوتے ہوتے حضرت خواجہ نور محمد مہاروی ، چشتیہ شریف ، حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ تونسہ شریف ،حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی ،حضرت پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا جن کا

اس عظیم صوفی کے در اقدس پر غیاث الدین بلبن ، تغلق بادشاہ جیسے شہنشاہ بھی حصول دین کے لئے حاضری دیتے رہے ہیں

بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ پنجابی شاعری کے مستند شاعر اول ہیں سکھ مذہب کی گرو گرنتھ صاحب میں بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام اشلوک کی شکل میں شامل ہے

8 سو سال گزر جانے کے باوجود دین اسلام ، توحید و سنت اور تصوف کے طالب زائرین اپنی روحانی تشنگی کی پیاس بجھانے کے لیے آستانہ عالیہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پر حاضری دیتے ہیں

لیکن افسوس کے 8 سو سال سے زائد گزر جانے کے بعد تک بھی دنیائے اسلام کی اس روحانی درسگاہ کو ایک باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل نہ ہو سکا جبکہ ملتان میں بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر صوفی بزرگ حضرت بہاوالدین کے نام سے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی قائم ہو چکی ہے اسی طرح کئی اور بزرگان دین کے آستانوں سے منسوب شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں
پاکستان میں جب عظیم اولیائے کرام کے تمام مزارت مقدسہ کو حکومت وقت نے اپنی تحویل میں لیا اور ان مزارت مقدسہ کی دیکھ بھال کے لئے اوقاف کا محکمہ قائم کیا گیا تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ محکمہ اولیائے کرام کی دینی تعلیمات کی فرغ اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ان مزارات مقدسہ کو تاریخی دینی مدارس کا درجہ دینے کا فریضہ ادا کرے گا مگر افسوس اس محکمہ نے ان مزارات مقدسہ کو صرف اور صرف حکومت کی آمدن کا زریعہ بنا لیا ہر سال ان مزارات مقدسہ سے کروڑوں روپے کی آمدن حکومتی خزانوں میں جمع ہوتی ہے لیکن وہ آمدن ان برگزیدہ ہستیوں کے افکار کے مطابق فروغ دین اور تعلیم و تربیت کی بجائے دیگر منصوبوں پر خرچ کی جا رہی ہے

اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں پاکپتن یونیورسٹی سے محروم ہے والدین کو اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے انھیں اپنی آنکھوں سے دور مختلف شہروں میں بھیجنا پڑتا ہے عدم تحفظ میں مبتلا اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی فیسوں کی ادائیگی کی استطاعت سے قاصر والدین کے بچے اور بچیاں اپنے بنیادی حق اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں

دیار بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ پاکپتن کی عوام عرصہ دراز سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم حصول کیلئے پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے کوئی یونیورسٹی نہ ہے یہاں تک کہ ساہیوال ڈویژن میں کوئی باقاعدہ یونیورسٹی نہ ہے پاکپتن کے طلباء نے اس عظیم کاز کیلئے پنجاب اسمبلی کے سامنے کیمپ بھی لگائے

پچھلی حکومت میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار پاکپتن آئے مزار اقدس پر حاضری کے وقت عوام اور معزز پریس نے ان کے سامنے بابا فرید یونیورسٹی کا مطالبہ پیش کیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے دربار بابا فرید کے آستانے میں عوام اور میڈیا کے سامنے بابا فرید یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن اپنا وعدہ ایفا نہ کرسکے
موجودہ حکومت کے قیام کے بعد پنجاب اسمبلی میں پاکپتن سے مخصوص نشت سے منتخب ایک سیاسی کارکن خاتون محترمہ موتیا مسعود خالد نے عوام کے درینہ مطالبہ کو قراد داد کی شکل میں پیش کیا

جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور پنجاب اسمبلی سے اپیل کی گئی کہ پاکپتن کوبابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ کی نسبت سے بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ یونیورسٹی کا تحفہ دیا جائے

محترمہ موتیا مسعود خالد نےاپنی بہترین لابنگ اور دانشمندی سے بابا فرید یونیورسٹی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے بھاری اکثریت کی ووٹنگ سے کامیاب کروا لی
بابا فرید یونیورسٹی کا قیام پاکپتن کی عوام کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر کی بنیاد اس یونیورسٹی کی قرارداد کی منظوری کی صورت میں رکھ دی گئی ہےاس تاریخی اور عوام دوست قرداد کی منظوری پر محترمہ موتیا مسعود خالد پاکپتن کی تمام عوام کی طرفسے مبارکباد اور خراج تحسین کی مستحق ہیں

پاکپتن کی تاریخ میں محترمہ موتیا مسعود خالد کی یہ عظیم خدمت ہمیشہ یاد رہے گی اور ان کانام پاکپتن کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا

امید واثق ہے کہ پنجاب حکومت جلد از جلد اس قرارداد پر عمل درآمد کرتے ہوئے دنیائے اسلام کے عظیم صوفی بزرگ بابا کے نام سے منسوب بابا فرید یونیورسٹی کے قیام پر عملی کام کا آغاز کرے گی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.