یُوٹیوب سے ٹِک ٹَاک تک کا سفر

264

تحریر : خالد غورغشتی

نائن الیون کے بعد دنیا یکسر بدل کر رہ گئی۔ پہلے ٹو جی، پھر تھری جی اور فور جی کے بعد اب فائیو جی سے سکس جی انٹرنیٹ سپیڈ متعارف کروانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کی بہ دولت اس قدر بےحیائی و عریانی کا سیلاب اُمڈ آیا کہ نوجوانوں کی اکثریت اس میں ڈوب چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے خطے میں سب سے زیادہ پورن ویڈیو دیکھی اور بیچی جاتی ہیں۔ اس میں باقاعدہ ماں، باپ، بہن، بیٹی، چچی، ممانی، اور پڑوسن وغیرہ پر ویڈیو بنا کر پہلے منظم انداز میں ذہن سازی کی گئی، پھر جب ساری قوم اس منظم سازش میں بہک گئی تو آج ایک گھر میں رہنے والوں کی عزت ایک دوسرے سے محفوظ نہ رہی۔ یہ سب امور ففتھ اور سکستھ جنریشن وار کا باقاعدہ حصہ تھے۔

یوٹیوب پر چینل بنا کر پیسے کمانے کا نوجوان نسل کو اس قدر شدید بخار چڑھا ہوا ہے کہ وہ لَائکس اور کومنٹس کےلیے کسی بھی حد تک جا کر بے ہودہ ویڈیوز اور اشتہارات اپلوڈ کرتے ہوئے بھی ذرا بھر نہیں شرماتے۔ ایک صاحب گزشتہ دنوں ماہ مقدس میں مجھے ملے۔ میں نے کہا آپ کو بڑی مدتوں کے بعد دیکھا، جناب کی مصروفیت کیا ہے۔ کہنے لگا: “یوٹیوب چینل پہ ہوتا ہوں۔ دو سال کی مسلسل محنت کے بعد جلد میرا چینل مونیٹائیز ہوجائے گا اور ارننگ شروع ہوجائے گی۔”

میں نے کہا بھئی، آپ کے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے تو فری لائنسنگ کورس کرکے قانونی طریقے سے کام کرکے کیوں نہیں کماتے. وہ کہنے لگا: وہ کیا ہوتا ہے؟
میں نے کہا بھئی یہ ایک مکمل کورس ہے، جہاں آپ سوشل میڈیا کے ذریعےکچھ نہ کچھ قانونی طریقے سے بغیر کچھ لگائے کما سکتے ہیں۔ البتہ آپ جس جھنجھٹ میں پڑے ہوئے ہیں، وہاں اتنی آسانی سے کسی کو کہاں ڈالر دیتے ہیں؟ اس کے پیچھے مکمل ایک لابی کام کر رہی ہے۔ جو نوجوان نسل کو سست ،نکما اور کاہل بنا کر اِکّا دُکّا افراد کو نواز بھی دیں تو باقی افراد سے اپنا حساب پورا کرلیتے ہیں۔ جیسے آپ سے پچھلے دو سالوں سے دوسروں کا اگلا پچھلا حساب کتاب پورا کر رہے ہیں۔ لیکن آپ کا چینل مونیٹائیز نہیں ہورہا ہے۔ اور آپ اب ہوا کہ؛ اب ہوا کرتے کرتے اس کام پہ دو سال ضائع کر بیٹھے۔

میرا یوٹیوب چینل بنانے والے بھائیوں اور بہنوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ فری لائنسر کورس کریں یا اس مصنوعی دنیا سے جان چھڑا کر عملی زندگی کی طرف آئیں، جہاں قدم قدم پر مُشکلات اور کانٹوں کے بعد مسلسل محنت کی صورت میں کامیابیاں آپ کی منتظر کھڑی ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک مشہور یوٹیوبر کے متعلق پسماندہ علاقے میں رہنے والی ہماری ایک بہن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری ہوئی۔ جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ اُس سے ایک یوٹیوبر نے رابطہ کیا اور کہا وہ ان کے گھر پانی کا کنواں لگا کر دے گا۔ اس سے ایک دفعہ بس وہ ملاقات کرلے۔ یوں یوٹیوبر ان کے پاس آیا اور ویڈیو بنائی لیکن اپنے چینل پر اپلوڈ نہ کی۔ اس لڑکی نے جب کہا کہ ویڈیو اپلوڈ کرو تو وہ کہنے لگا آپ سے ایک کام ہے؛ مجھ سے صرف ایک بار ملاقات کرلو۔ اس بدبخت نے ملاقات کرکے اس مجبور و لاچار لڑکی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور کہا خبردار اگر کسی کا بتایا تو ویڈیو لیک کر دوں گا۔ اس لڑکی نے گزشتہ دنوں ویڈیو بنائی اور کہا اس کے پیٹ میں۔۔

ہمیں بتاؤ جس ریاست میں یوٹیوبر جیسے لوفر لفنگے غریب عوام کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں وہاں آپ کس خیر کی توقع کر سکتے ہیں؟

ٹک ٹاک ایپ نے تو جیسے ہماری نسلوں کو مسخرہ، اداکار اور گلوکار بنا کر رکھ دیا۔ یہ خواتین اور نوجوانوں کی مقبول عام ایپ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک خواتین و حضرات آج جسم کی نمائش کرتے آپ کو ٹک ٹاک پر مل جائیں گے۔ ان سے پوچھو تمھیں ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنا کر کیا مل جائے گا؟ جواب ملے گا لائکس اور کومنٹس۔ حالاں کہ ان کو کوئی دریافت کرے تمھیں گلی محلے اور اردگرد کے کتنے لوگ پسند کرتے ہیں تو منھ بسورتے ہوئے اکثر کہتے ہیں آج کل ایسا کہاں؟

جانتی ہو میری بہنوں تمھاری سوشل میڈیا پر بَلے بَلے کیوں ہوتی ہے؟ دراصل بَولر تمھاری تعریف و توصیف کرکے تمھاری وکٹیں گرانا چاہتے ہیں۔ اگر تمھاری ویڈیو یا تصویر پہ لاکھوں لائکس، کومنٹس اور شئیر آ چکے ہیں اور تم دن رات پھولے نہیں سما رہی ہو تو یاد رکھنا۔ یہ ہوس کے پجاری ہیں، جو تمھارے من میں سمانا چاہتے ہیں۔ یہ جو سوشل میڈیا کے اکثر دوست ہوتے ہیں ناں پہلے تصویر لے کر تعریفوں کے پل باندھتے ہیں پھر نمبر لے ویڈیو کال پہ چسکے لیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی تمھیں کسی بہاؤ میں سمجھتا، سب یہاں تمھاری جوانی کو نوچنا چاہتے ہیں۔ بات تو سچ ہے، مگر رسوائی کی۔

ٹِک ٹَاک اور سیلفی نے ہمیں اس قدر دین سے بیزار کردیا کہ ہم مُقدس مقامات پر بھی سلیفیاں اور ویڈیوز بناتے ہوئے نہیں شرماتے۔ سلیفیاں لیتے اور ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے روزانہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے باوجود بھی ہم اس نحوست سے نہ جانے کیوں باز نہیں آتے۔

ہمارا اداروں سے بھرپور مُطالبہ ہے کہ سُوشل مِیڈیا کو بےلگام چھوڑنے کی بجائے اس کی کڑی نگرانی کرکے اس پر سخت پابندیوں کا اِجرا کرکے معاشرے کو یقینی تباہی سے بچایا جائے۔ مزید معلومات کےلیے “ٹِک ٹَاک کا نشہ” نامی میرا کالم ضرور مطالعہ کریں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.