احساس کے انداز
بہار کی ہر سو پھیلتی خوشبو اور خوشی کے رنگ
آج کل ایک طرف بہار کی آمد آمد ہے خزاں رسیدہ پرانے اور زرد پتےجھڑ چکے نئے پھولوں کلیوں ،اور
باغوں کے سرسبز درختوں نے خوشبو اور رنگوں نے اس رومان پرور ماحول کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا ہے
بہار کی رنگین فضا میں ایک جانب چڑیوں اور بلبلوں کی نغمہ سرائی موسم بہار کی آمد کا اعلان کرتی
نظر ٓاتی ہے نئے پتے نئی کلیاں نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں
بسنت رت نے ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھیر دئیے ہیں خوشیوں ،محبتوں ،عزتوں ،احترام اور
احساس کے رنگ اور انسانیت سے محبت و عقیدت کے رنگ تو دوسری جانب موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ
معاشی تبدیلی کی اُمید بھی جاگ اُٹھی ہے
مارچ اپریل کی غیر معمولی بڑھتی ہوئی گرمی میں گندم کی فصل کٹائی کا آغاز ہو چکا ہے
جو کسانوں کو اپنی سال بھر کی محنت کا ثمر فراہم کرتا ہے ۔
ان کی امیدوں اور خوشیوں کے میلے سجنے لگے ہیں اس سال جاتی ہوئی سردی اور
خزاں اپنے ساتھ جاتے ہوئے بےشمار بیماریوں اور وباؤں کے خوف کی بساط بھی لپیٹ کر لے جا چکی ہے
لوگ کھانسی نزلے سے آزاد ہو کر پرانے میل جول کی روایات کو پھر سے زندہ کر ر ہے ہیں فاصلے ختم ہو رہے
دل مل رہے ہیں محبتیں بڑھ رہی ہیں۔ میلے سجنے لگے ہیں ۔
اور ایک دفعہ پھر ڈھول شہنائی ،رقص اور جھومر کے شور میں گندم کی فصل کٹائی کا
خوبصورت منظر قابل دید ہے گندم کٹائی کے یہ دن کسان کے لیے خوشحالی کا پیغام لاتے ہیں
پورے سال کے خواب دیکھنے اور فصل کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے کے بعد گندم کے سنہری خوشے
دیکھ کر لوگوں کے چہرے کھل اُٹھے ہیں
یوں لگتا ہے اس فصل پر کسی نے سونے کا پانی چڑھا دیا ہے جو کسان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک پیدا کررہا ہے
بچیاں باغوں اور درختوں پر جھولے ڈال لیتی ہیں تو کھیتوں کے منڈیروں پر بیٹھے چھوٹے بچے گندم کی دھول سے مزے لے رہے ہیں
تو علاقے کے فقیر بھی کٹائی کے منتظر ہوتے ہیں
تو گویا پرندوں ،کیڑے مکوڑوں اور انسانوں سب کا مشترکہ ایک دسترخوان سجنے جا رہا ہے
اور پھر گندم کی خرید کا اضافی حکومتی ہدف ،دانہ دانہ خریدنے کا عزم اور سرکاری ریٹ چار ہزار روپے فی من معاشی بہتری کی امید دلا رہا ہے
یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ گندم دنیا بھر میں بھوک کے خلاف فیصلہ کن ہتھیار رہا ہے
اور پھر ہمارے ملک میں تو گندم ایک کلیدی فصل ہے
ہمارا ملک دنیا میں گندم پیدا کرنے والا آٹھوں بڑا ملک ہے
جو ہماری زندگی میں خوراک اور دولت دونوں فراہم کرتی ہے
کسان اپنی سالانہ ضرورت کی گندم رکھ کر باقی فصل فروخت کر دیتا ہے
تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکے
یہ بھی ہماری روایت ہے کہ اس فصل میں تما م غربا و مساکین اور ضروت مندوں کا حصہ ہوتا ہے
جو ان تک” لاگ “اور “عشر “کی صورت میں پہنچتا ہے ۔
اس فصل کی آمدنی سے میلوں اور بازاروں میں رونق بڑھے گی ۔ لوگوں کے جانے کتنے ارمان پورے ہوں گے ؟
کتنے ہاتھ مہندی سے پیلے ہوں گے ؟کتنی شہنائیاں گونجیں گیں اور باراتیں اور دلہنیں سجیں گیں ؟
کتنے بچوں کی فرمایشیں پوری کرنے کا وقت آپہنچا ہےبیوی بچوں اور
خا ندان سے وعدے پورے کرنے کے لمحات آپہنچے ہیں ۔ پچھلے دو سال سے کرونا وبأ سے
ستائے لوگ سکھ کا سانس لیں گے ۔
کتنے غریبوں کا روزگار کھلے گا ،کتنے ہی مستحق لوگ اس نعمت کا فائدہ اُٹھائیں گے ۔
گندم کی ٖفصل انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور حشرات کی سال بھر کی خوراک ہوتی ہے ۔
کھیتوں میں ان کی کثیر تعداد تلاش رزق میں جوق در جوق پہنچتی ہے
اور اپنے حصہ کا رزق حاصل کرتی ہے۔
کھیت سے منڈی اور پھر گودام تک کتنی ہی مخلوقات اس رزق سے اپنا حصہ حاصل کرتی ہیں
یہ سب اس قدرت کا عظیم انتظام ہے جو انسانی عقل سے بالا ہے ۔
خوشی کی یہ گھڑیاں اور رزق کی فراوانی اللہ کا ہم پر خاص انعام ہے
لیکن دوسری جانب بے ضمیر اور با اثر ذخیرہ اندوز اپنے جال پھیلا چکے ہیں اور
کسان سے یہ فصل اونے پونے دام خرید کر اپنے گودام بھرنے کے چکر میں ہیں
جبکہ اسلام غلہ اور کھانے پینے کی اجناس کی ذخیرہ اندازی سے سخت منع کرتا ہے
ذخیرہ اندوزی کو ایک لعنت قرار دیتا ہے ۔
مگر یہ مافیا مارچ سے اگست تک جب گندم وافرہوتی ہے تھوڑی سی زائد قیمت دے کر
غریب لوگوں سے خرید لیتے ہیں اور اپنے گوداموں میں جمع کرکے دسمبر کے بعد جب
گندم کمی کے باعث مہنگی ہو جاتی ہے
اور لوگوں کے گھروں میں موجود ذخائر ختم ہوجاتے ہیں تو مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں
اور پھر آہستہ آہستہ اس کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں
اس طرح غریب لوگوں کی مجبوری سے ناصرف فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ ناجائز منافع خوری سے مال کماتے ہیں ۔
یہ ذخیرہ اندوز ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہیں جن کے سدباب اور بیخ کنی کے لیے
سخت ترین قوانین اور حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے
تاکہ یہ لالچی مافیا چند روپوں کی خاطر اس ارض پاک کے غریبوں کو بھوکا نہ رکھ سکے۔ہمارے ہاں ناجائز پیسہ کمانے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے جو اخلاقی پستی کی بھی انتہا ہے اور مذہب اور قانون کے بھی خلاف ہے ۔اس سال مہنگائی کی وجہ سے کھاد بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ زمینوں کے ٹھیکے بھی آسمان سے باتیں کرتے رہے ہیں
اس لیے کسان کی لاگت پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے اس لیے اس کو اسکی محنت اور لاگت دونوں کا صلہ ملنا بے حد ضروری ہے
گندم کی اس مرتبہ تاریخی فصل ہونے کی توقع کی جارہی ہے
جو ہمارے ان محنت کش کسانوں کی کاوشوں کا ثمر ہے ۔
اس سال شاندار گندم کی فصل کے دعوے کو دیکھتے ہوے کہا جارہا ہے
کہ پاکستان ایک بار پھر گندم برامد کرنے والا ملک بن سکتا ہے ۔
جو یقینا” عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا باعث بن سکے گا ۔
بہاولپور کے صحرا چولستان میں جہاں نہری پانی نایاب اور زمینی پانی کا حصول بہت مشکل ہے
اس مرتبہ ہر جانب گندم کی فصل کے رنگ بدلتے کھیت دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے
حد نگاہ گندم ہی گندم نظر آتی ہے جو وہاں کے کسانوں نے سولر پینل سے چلنے والے پمپس سے کاشت کی ہے
چولستان کا یہ وسیع علاقے ملک کو گندم میں خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کرےگا ۔
قدرتی دولت اور جنگلی حیات سے مالا مال چولستان کا یہ وسیع صحرا مزید توجہ اور اقدامات کا متقاضی ہے
جو یقینا” پاکستان کے معاشی حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
دبئی کی طرح مصنوعی بارش کے ذریعے اس وسیع زرعی صحرا کو سرسبز اور
زرخیز میدانوں میں بدلا جا سکتا ہے ۔
بے شک زراعت کی ترقی ہی ہماری معیشت کی بحالی کا واحد راستہ ہے
درحقیقت گندم کے کھیتوں اور ان کے خوشوں میں گندم کے دانے نہیں ہماری خوشحالی
اور ترقی کے خواب بستے ہیں ۔
موجودہ حکومت کا زرعی ترقی کا عزم ہی ہمارے ان خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
کسان سے گندم کا ہر ہر دانہ سرکاری ریٹ پر خرید لینا ہی ان کی خوشحالی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے
جو مزید پیداور کے لیے انہیں مزید محنت کی ضرورت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ
ان کی سابقہ محرومیوں کا ازلہ بھی کرے گی انشاءاللہ !
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
پہلے گندم کی فصل کی کٹائی لوگ درانتی سے خود کرتے تھے جس کی وجہ سے وقت تو زیادہ لگتا تھا
مگر گندم کے ساتھ ساتھ بھوسے کی کثیر تعدا د بھی حاصل ہوتی تھی جو وہ پورا سال
اپنے جانوروں کو چارے کے طور پر استعمال کراتے تھے
مگر اب سا ئنس اور ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کر لی ہے اور جدید مشینری نے کام بہت آسان کردیا ہے
ہارویسٹر ز اب دنوں کا کام گھنٹوں میں کر رہے ہیں
مگر گندم کے سیزن میں ان سے نکلنے والا گرد اور غبار پورے ماحول کو آلودہ کر دیتا ہے
جو فضائی آلودگی کو جنم دیتا ہے اور سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور ہر جانب سموگ چھا جاتی ہے
جو ہر جانب ایک گرد آلود ماحول پیدا کر دیتی ہے جو ڈسٹ الرجی کے مریضوں کو متاثر کرتا ہے ۔
جس سے انسانی صحت پر کئی اور مضر اثرات بھی سامنے آتے ہیں ۔
ہمارا ملک پہلے ہی آلودگی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہےجو ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
گندم کی کٹائی کے بعد باقی بچ جانے والی با قیات کو آگ لگا دی جاتی ہے
حالانکہ اس پر بھی حکومتی پابندی ہے ۔
اس کو آگ لگانے سے اسموگ بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ انسان دوست لاکھوں کیڑے مکوڑے
، پرندے بھی جل جاتے ہیں جو رزق کی تلاش اور ہمارے ماحول کی قدرتی صفائی
اور بہتری کے لیے وہاں موجود ہوتے ہیں
یہ ہمارے ماحول کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے جو قدرت کی جانب سے اپنا فرض ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
یہ پرندے تو شاید اُڑ جائیں مگر حشرات اور کیڑے مکوڑے اتنے تیز نہیں ہوتے کہ دوڑ یا اڑ کر اپنی جان بچا سکیں۔
اسطرح ایک طرف تو ہم ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر دیتے ہیں جو انسانی جان کے لیے
بڑا خطرہ بن جاتا ہے اور سانس کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کرتا ہے
تو دوسری جانب قدرت کے
بنائے نظام میں مداخلت ہو جاتی ہے ۔
ہمیں سوچنا ہے ہم اپنا کام آسان کرنے کے چکر میں کہیں کسی بڑے ظلم کے مرتکب تو نہیں ہورہے ؟
کہیں ہم بے زبان مخلوق کا رزق آگ سے جلا کر ضائع تو نہیں کررہے ؟
کیونکہ گندم کا بھوسہ بھی ہمارے پالتو جانوروں کی پورے سال کی خوراک ہوتا ہے اور
تمام مخلوق خدا کا خیال رکھنا بھی سنت رسول ہے ۔اس لیے خدارا دوران کٹائی فصلوں میں
سگریٹ نوشی اور آگ جلانے سے سخت پر ہیز کریں ۔
آپ کا یہ شوق کسی بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ ایک اچھا کسان قدرت کی
عطا کردہ ہر ہر نعمت کا بروقت اور برموقع خوب فائدہ اٹھا نا جانتا ہے۔
موسم اچھا ،پانی وافر ،مٹی بھی زرخیز ۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
ملکی معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کی باعث عوام بیماری ،بے روزگاری اور
غربت و مہنگائی کا شکار ہیں اور بہت سے سفید پوش لوگ اپنی شرم اور وضع داری کےباعث
کسی کے سامنے دست دارز کرنا
تو دور کی بات ہے اپنی ضرورت کا اظہار بھی نہیں کر پاتے ۔اس مرتبہ گندم کی فصل کٹائی
،رمضان المبارک اور عید کی خوشیاں ایک ساتھ ہی قدرت نے عطا فرما دی ہیں ۔
اس خوشی کے موقع پر ہمیں ان ضرورت مندوں سفید پوشوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرنی چاہیے
اور اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہیے ۔
جب بہار کے پھولوں اور گندم کے خوشوں کی یہ بھینی بھینی خوشبو فضا میں ہر سو پھیلتی ہے
تو کھیت سے کھلیان پھر منڈیسے فلور ملز تک ناجانے کتنے ہی اس کے حقدار انسان چرند پرند اور
کیڑے مکوڑے اس فصل کے ہر ہر دانے سےمستفید ہونے کے لیے سڑکوں اور راستوں پر امڈ آتے
اور اپنی سال بھر کی خوراک جمع کر لیتے ہیں
یاد رکھیں کہ گندم کا ایک دانہ کسی ننھی چیونٹی کی سال بھر کی خوراک ہوتا ہے
جس کا ثواب مفت میں ہمیں پہنچتا ہے ۔
اللہ نے ہمیں آج گندم کی جس نعمت اور انعام سے نوازا ہے اس کا شکر ادا کرنے کا شاید یہ
بہترین طریقہ اور فراخی رزق کا ذریعہ ثابت ہو گا ۔
ہمارے کسان کی پورے سال کی محنت اسکی ہی نہیں پوری قوم کی امیدوں کی روشنی کی کرن
اور خوش حالی کی نوید ہوتی ہے ۔
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو ۔۔۔۔۔۔۔۔پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے
تحریر :۔ جاوید ایاز خان
26/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-5-scaled.webp