منفرد لہجے کی ابھرتی ہوئی شاعرہ

156

یہ اللہ کی خاص دین ہوتی ہے۔ کچھ لوگ صاحب شعور ہوا کرتے ہیں تو کچھ سراپا شعور۔
صاحب شعور ہونا بہت بڑی نعمت عظمی ہے لیکن سراپا شعور ہونا انسانی کمال کی معراج ہے۔
میرا محترمہ فوزیہ ردا سے دو سال سے زائد کا خلوص بھرا رشتہ قائم ودائم ہے۔
ان سے بہت کچھ سننے، سمجھنے اور سیکھنے کو ملا۔
آج ان کی علمی و تحقیقی شخصیت کا فنی احاطہ کرنے کی سعی کروں گا۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔

اصل نام فوزیہ اختر جب کہ قلمی نام اور تخلص ردا ہے۔
آپ نے بی ایس سی بائیو سائنس میں کیا۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں عالم خورشید پٹنہ بہار انڈیا اور منظور قاضی امریکہ شامل ہیں۔ محترمہ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے شاعری کا آغاز فیس بک سے کیا اور بڑھتے بڑھتے جنون و لگن سے مصنفہ بن گئی۔
ان کا پہلا شعر جو زبان زد عام ہوا یہ ہے:-

اشکوں کا بہنا اچھا ہے
سب کچھ سہنا اچھا ہے

ردا صاحبہ نے غزل، نظم، حمد منقبت، قطعات اور اطفال کےلیے نظمیں، غزلیں اور بہت سے افسانچے لکھے۔
جب کہ ان کی پسندیدہ صنف غزل قرار پائی۔
محترمہ کا نعتیہ مجموعہ “صاحب” اردو اور ہندی بیک وقت دونوں زمانوں میں شائع ہوا۔ ایک نعت ملاحظہ ہو:-

بلبل کو پھول، پھول کو نکہت پسند ہے
مجھ کو مرے حضور کی صورت پسند ہے

سرکار دو جہاں کی رسالت پسند ہے
یعنی وہ آفتابِ ہدایت پسند ہے

حمد و ثنا کی ہو تو وہ رغبت پسند ہے
کثرت درود کی ہو تو کثرت پسند ہے

آنسو چھلک پڑیں جو مدینے کی یاد میں
اس قلب بے قرار کی رقت پسند ہے

ہر ہر مقام پہ مرے رب کریم کو
محشر میں مصطفی کی حمایت پسند ہے

آپ کا شعری مجموعہ سپتک 2022 ء کو شائع ہوا۔ جس نے دنیا بھر میں مقبولیت کا آفاقی ریکارڈ قائم کر کے رکھ دیا۔ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان سمیت درجنوں ممالک کے قارئین نے آپ کی اس کاوش کو سراہا۔

اس وقت بچوں کی نظموں و غزلوں کا مجموعہ “حرف کھلونے” زیر ترتیب ہے۔
آپ بزم بہاراں اور بزم نگاراں جیسی مشہور ادبی تنظیمات کی جنرل سیکریٹری ہیں۔
جہاں آپ کی خدمات پر آپ کو بارہا مرتبہ خراج تحسین پیش کیا گیا۔

محترمہ بنگال کی ابھرتی ہوئی سحر انگیز اور فکر انگیز شاعرہ ہیں۔
جنھوں نے عالمی سطع کے ان گنت مشاعروں میں اپنا علمی و ادبی نام کمایا۔
شاعری کا نزول ان پر یوں ہوتا ہے جیسے برسات میں برکھا برستی ہو۔
محترمہ کی زبان چوں کہ اردو ہے، اس لیے وہ اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر
میں بھی اپنے علمی فن پاروں سے قارئین میں شعور کی نئی بلندیاں اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔

انھوں نے بچوں کےلیے بے شمار کہانیاں اور نظمیں لکھیں،
یوں وہ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی من پسند شاعرہ کہلاتی ہیں۔ بچوں کےلیے ایک نظم:-
“چندریان تین”

چندرما اب دور نہیں ہے
کیا آنکھوں کا نور نہیں ہے

مشکل کام کیا اس نے سر
چندریان نے پھیلائے پر

سانس داں اور جنتا خوش ہیں
یورپ، چین، امریکہ خوش ہیں

چاند پہ اپنے پیر جمائے
چندریان اب سیر کرائے

ہند کا نام کیا ہے روشن
اور لٹایا اپنا تن من

چاند پہ جھنڈا ہے لہرایا
کام بڑا کرکے دکھلایا

چاند ہے ہنستا اور چمکتا
دھرتی کو بےحد خوشی سے تکتا

تھا پہلے کتنا یہ تنہا
تھا چہرہ بھی اترا اترا

آج خوشی تو اس کی دیکھو
نور کی مانند تم بھی بکھرو

شاعر اس پر نظمیں کہتے
ذکر غزل میں اس کا کرتے

چندریان کے جیسے بننا
محنت سے آگے تم بڑھنا

آپ آل انڈیا ریڈیو سمیت مختلف قومی و علاقائی سطع پر اپنے لکھے کلام کی بہ دولت شہرت دوام پا چکی ہیں۔
آپ خاموش طبع مگر گہری سوچ کی حامل مستند لکھاریہ ہیں۔
اس لیے آپ کے نثری و شاعری مجموعے میں روایتی طرز کا انداز سخن نہیں ملے گا،
بل کہ وہ جدید طرز بیان سے قارئین کو اپنے جادوئی کلام کے سحر میں جلد ہی جکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ذرا ان کا انداز متکلم تو ملاحظہ ہو:-

جو دیوانہ ہو سکتا ہے
خود افسانہ ہوسکتا ہے
آپ کے دل میں بھی کیا میرا
آنا جانا ہوسکتا ہے

محترمہ کی شخصیت اب بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان تک محدور نہیں رہی۔
وہ آفاقی ادیبہ بن چکی ہیں۔ انھوں نے اپنے طرز بیان میں شکوے شکایت کو
ایسے محبوبانہ ڈھنگ میں پیش کیا کہ قاری پڑھ کر خود کو محبت کی گم نام وادیوں میں
بھٹکتا ہوا محسوس کرتا ہے

اپنی قسمت کو ہرا کر دیکھیے
ان لکیروں کو مٹا کر دیکھیے

آگ سے رشتہ نبھا کر دیکھیے
“آپ اپنا گھر جلا کر دیکھیے”

آپ کو ہم نے منایا بارہا
یوں کبھی ہم کو منا کر دیکھیے

پوچھنا کیا خواب کی تعبیر کا
خواب آنکھوں میں بسا کر دیکھیے

دشمنوں کو آزما کر فائدہ
دوستوں کو آزما کر دیکھیے

جس کو سن کر جھوم اٹھوں میں ردا
گیت ایسا گنگنا کر دیکھیے

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-7-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.