کربلا کا پیغام ۔حق ،قربانی اور بیداری

تحریر: [ماہر نفسیات نبیلہ شاھد]

2

محرم الحرام آتے ہی دلوں میں ایک درد جاگ اُٹھتا ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، اور زبان پر لاشعوری طور پر نعرہ بلند ہوتا ہے: “یا حسینؑ!” یہ محض ایک ماتمی فقرہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک تحریک اور ایک لازوال قربانی کی یاد ہے جو کربلا کے تپتے ریگزار میں رقم کی گئی۔
کربلا کوئی معمولی معرکہ نہ تھا، بلکہ یہ تاریخِ انسانیت کا وہ فیصلہ کن لمحہ تھا جہاں باطل، اقتدار اور جبر کی تمام قوتیں ایک طرف تھیں، اور دوسری جانب صرف ایک خانوادہ تھا — نبی کریم ﷺ کے نواسے، حضرت امام حسینؑ اور ان کے وفادار ساتھی۔
حضرت امام حسینؑ کی شخصیت صرف ایک شہید کی حیثیت سے یاد نہیں رکھی جاتی، بلکہ آپ ایک کردار، ایک رہبر، ایک معلم، اور ایک نظریہ تھے۔ آپ کی سیرت کا ہر پہلو عدل، صبر، تقویٰ، شجاعت، علم و حکمت سے روشن ہے۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ جینا صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ حق پر جینا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانا اصل حیات ہے۔
امام حسینؑ نے ہمیں وہ سبق دیا جو آج بھی پوری دنیا کے مظلوموں، آزاد فکر رکھنے والوں اور بااصول انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا تھا:
“موت میں ذلت سے کہیں زیادہ عزت ہے، اگر وہ حق کے لیے ہو۔
کربلا کا واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک ایسا ناقابلِ فراموش باب ہے، جو رہتی دنیا تک انسانیت، غیرت، عدل، اور سچائی کا درس دیتا رہے گا۔ یہ محض ایک معرکہ نہیں، بلکہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی بنیاد قربانی، اصول پسندی، اور ظلم کے خلاف مزاحمت پر رکھی گئی۔ حضرت امام حسینؑ نے کربلا میں جو مثال قائم کی، وہ صرف اسلامی دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک انقلابی پیغام ہے۔
یزید کا نظام صرف حکومت کا نہیں تھا بلکہ ایک فساد پر مبنی طرزِ فکر تھا، جہاں دین کو سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ امام حسینؑ نے اس کے خلاف آواز بلند کی، اور فرمایا:
“میں باطل کے نظام کو گوارا نہیں کر سکتا، چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔”
کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے ساتھ صرف بہتر (72) افراد تھے، جبکہ یزید کی فوج ہزاروں میں تھی۔ لیکن یہ معرکہ طاقت کا نہیں، کردار کا تھا۔ امام حسینؑ نے اپنے عمل سے دنیا کو دکھایا کہ فتح صرف جنگ جیتنے سے نہیں، اصولوں پرقائم رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔
کربلا کا انقلاب خاموش نہیں تھا۔ حضرت زینبؑ اور حضرت امام سجادؑ نے کوفہ و شام کے درباروں میں یزید کے ظلم کو بے نقاب کیا۔ یہ پیغام عام کیا کہ حسینؑ شہید ضرور ہوئے، مگر ان کا مشن زندہ ہے۔
آج، جب دنیا میں ہر طرف ظلم، ناانصافی، اور مادہ پرستی عام ہے، تو کربلا ہمیں جھنجھوڑتی ہے۔ کیا ہم سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم حسینی بننے کی خواہش رکھتے ہیں، یا صرف رسمِ عاشور تک محدود ہیں؟
کربلا ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی جرم ہے۔ امام حسینؑ نے جان دے دی، مگر باطل کو تسلیم نہ کیا۔ یہی ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل کامیابی اصولوں پر قربانی دینے میں ہے، نہ کہ وقتی فائدے حاصل کرنے میں۔

کربلا ایک دن یا ایک مہینہ نہیں، بلکہ ہر دور کا پیغام ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر حق پر قائم رہنا ہو تو تنہا ہونے سے نہ گھبراؤ، حسینی قافلے ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں، مگر حق پر ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ امام حسینؑ کے نظریے کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں، تاکہ معاشرہ عدل، کردار اور انسانیت کی روشنی سے روشن ہو سکے۔
واقعہ کربلا تاریخِ اسلام کا ایک ایسا باب ہے جو رہتی دنیا تک حق، قربانی اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتا ہے۔ حضرت امام حسینؑ نے یزیدی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے اسلام کو ایک نظریاتی انقلاب عطا کیا۔ یہ جنگ صرف جسموں کی نہیں، بلکہ کردار، اصول اور ضمیر کی تھی۔
امام حسینؑ نے ظلم کے آگے سر نہ جھکایا اور اپنے جانثاروں کے ساتھ کربلا کے تپتے میدان میں قربانی کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک مظلوموں، بااصول لوگوں اور حق پرستوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ خاموشی بھی جرم ہے جب ظلم غالب ہو۔ آج بھی اگر ہم اپنے معاشرے میں عدل، غیرت، اور سچائی چاہتے ہیں، تو ہمیں حسینی فکر اور سیرت کو اپنانا ہو گا۔ یہی کربلا کا اصل پیغام ہے — حق پر ڈٹ جانا، چاہے قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

کربلا کا واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جب دین پر خطرہ ہو، جب ظلم عام ہو جائے، جب ضمیر بکنے لگیں اور جب سچ کو دبانے کی کوشش ہو، تب حسینؑ بن جانا لازم ہے۔ یہ قربانی فقط 61 ہجری کی تاریخ نہیں، بلکہ ہر دور کا پیغام ہے — ظالم کے خلاف کھڑا ہونا، چاہے نتیجہ شہادت ہی کیوں نہ ہو۔
آج کے دور میں جب اصولوں کو مفادات کی نذر کیا جا رہا ہے، جب ضمیر نیلام ہو رہے ہیں، جب سچائی کو دبایا جا رہا ہے — ہمیں پھر سے امام حسینؑ کی سیرت کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہمیں صرف محرم کے جلوسوں میں نہیں بلکہ اپنے کردار، اپنے فیصلوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں “حسینی” بننا ہوگا۔
یقین جانیں، اگر حسینیت ہمارے دلوں میں زندہ ہو جائے تو کوئی یزید ہمارے نظام، ہماری سیاست، ہمارے عدل، اور ہمارے ضمیر کو خرید نہیں سکتا۔
محرم الحرام ہمیں صرف غم کا نہیں، بیداری، قربانی، اصول پسندی اور حق گوئی کا مہینہ بنانا چاہیے۔ حضرت امام حسینؑ کا پیغام رہتی دنیا تک انسانیت کو جھنجھوڑتا رہے گا، بشرطیکہ ہم اسے صرف تاریخ نہ سمجھیں بلکہ اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.