ممتاز راشد کی قطعہ نگاری۔۔۔۔

روبرو۔۔۔محمد نوید مرزا

2

ممتاز راشد اردو شعر وادب کا ایک معتبر نام ہیں۔راشد پچھلے پچاس برس سے دنیائے ادب سے وابستہ ہیں۔انھوں نے ایک طویل عرصہ قطر میں گذارا ہے،جہاں وہ کئی دہائیوں تک ملازمتی خدمات کے ساتھ ساتھ بطور شاعر ،ادیب ،نقاد،محقق اور مزاح نگار خاصے متحرک رہے ہیں۔اس کے علاؤہ وہ ایک ادبی جریدہ ،خیال و فن بھی نکالتے رہے ہیں۔وطن واپس آکر بھی راشد کی ادبی سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔راشد ایک مستقل مزاج انسان ہیں۔ان کی تخلیقی قوت کا اظہار ان کے شعری مجموعوں میں جا بجا ملتا ہے۔ایک شاعر ہونے کے علاؤہ وہ ایک بہترین نثری نگار بھی ہیں۔اب تک ممتاز راشد کی 33 شعری و نثری کتب شائع ہو چکی ہیں۔ممتاز راشد حمد ،نعت،غزل ،نظم،ماہیے،ٹپے،بولیوں اور قطعہ نگاری میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔حال ہی میں ان کے قطعات پر مشتمل کتاب ،لہریں اشاعت پذیر ہوئی ہے۔اس سے پہلے ان کی قطعات کی دو کتابیں،تیری خوشبو سے دل مہکتا ہے اور ہم ہیں اپنے مزاج کے بندے شائع ہو کر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔پہلا مجموعہ رومانی قطعات ،دوسرا معاشرتی قطعات اور تیسرا مجموعہ،لہریں ان کے متحرک محاکاتی قطعات پر مشتمل ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔بقول ممتاز راشد،،لہریں میرے اردو قطعات کا تیسرا مجموعہ ہے۔اس میں متحرک قطعات اور محاکاتی قطعات شامل ہیں۔محاکاتی شاعری،مصرعوں وغیرہ میں لفظوں سے تصویر بنانے کا عمل ہے،،
سو ممتاز راشد نے لہریں میں شامل قطعات کے ذریعے لفظوں سے تصویریں بنا کر انھیں چار مصرعوں میں شاہکار بنایا ہے،جو قابل قدر اور قابل توجہ ہے۔راشد مزید لکھتے ہیں،،محاکاتی شاعری کا مطلب ہے شاعری میں الفاظ کی گلکاری یا شاعری میں یا شاعری میں لفظوں سے تصویر کشی کرنا اور یہی الفاظ شاعری میں اگر چلتی پھرتی،ہلتی جلتی اور لہلہاتی تصویریں بنا رہے ہیں تو متحرک محاکاتی شاعری وجود میں آ تی ہے۔میرے سینئر ہم عصر شعراء میں یہ ہنر سب سے زیادہ نمایاں طور پر نذیر قیصر کی شاعری میں ملتا ہے،،
راشد نے اس کتاب کا انتساب بھی نذیر قیصر کے نام کیا ہے۔ویسے تو محاکاتی شاعری دنیائے ادب کے ہر شاعر کے ہاں کم یا زیادہ موجود ہے۔ظاہر ہے شاعری میں کسی منظر، واقعے یاحادثے کی تصویر کشی کرنا ہی تو محاکات کہلاتا ہے ۔یہ وہ لفظی تصویر کشی ہے جو شاعر کے مصورانہ قلم سے نکل کر شاہکار کی صورت صفحہء قرطاس پر بکھرتی ہے اور ممتاز راشد کے قطعات بھی اس کی عمدہ مثال ہیں۔
ممتاز راشد اپنے قطعات میں قاری کو چونکاتے بھی ہیں اور متاثر بھی کرتے ہیں۔ وہ چار مصرعوں میں قاری کو دلچسپی کے سبھی مواقع فراہم کرتے ہیں ۔اس حقیقت کو معروف سینئر شاعر جناب اعتبار ساجد یوں بیان کرتے ہیں،،ان کے قطعات اتنے متنوع اور دلکش ہیں کہ بہتر سے بہترین کا انتخاب مشکل ہو جاتا ہے ،ایک کے بعد دوسرا،تیسرا اور پھر مسلسل دلکش ،دلفریب اور منفرد قطعات کے سچے موتیوں کی لڑی ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کس قطعے کو کس پر ترجیح دی جائے،،اعتبار ساجد صاحب کی ان باتوں کی تصدیق کے لئے آئیے اب چند قطعات دیکھتے ہیں،،

بے بسوں کی مدد کروں کیسے
مضطرب ہو کے سوچتا ہوں میں
کام ان کے جب آ نہیں پاتا
خود کو دن رات کوستا ہوں میں

درختوں کا سایہ ہے سب کے لئے
وہ اپنا پرایا نہیں دیکھتے
بشر بیچ سکتا ہے علم و ہنر
درخت اپنا سایا نہیں بیچتے

کھیت کی خارزار تاروں پر
اڑتی چڑیاں بسیرا کرتی ہیں
کھیت سے دانے چگتی ہیں راشد
پھر وہ لمبی اڑان بھرتی ہیں

لہریں کا پیش لفظ خود ممتاز راشد نے لکھا ہے جب کہ دیگر شخصیات میں جناب شاعر علی شاعر،جناب اقبال راہی،جناب اعتبار ساجد اور محترمہ تسنیم کوثر کی آراء شامل ہیں۔سب نے راشد کی قطعہ نگاری کو سراہا ہے اور انھیں بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔یہ کتاب زرقا پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس کی روح رواں محترمہ زرقا نسیم نے بھی ان قطعات کی تحسین کی ہے وہ لکھتی ہیں،،ممتاز راشد لاہوری صاحب میرٹ کے شاعر ہیں۔آپ کے حسن اخلاق اور ادبی خدمات پر ہمیں ناز ہے یہ کتاب قارئین کو اس لئے بھی زیادہ پسند آئے گی کہ چلبل قطعات کے ساتھ رم جھم برستی محبت اور اٹھکیلیاں قطعات کی صورت میں کتاب کو چار چاند لگائے ہوئے پیں،،
لہریں کی کامیاب اشاعت پر میں راشد صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔آپ نے قطعہ نگاری میں جو شہرت اور عزت حاصل کی وہ یقینی طور پر مسلسل محنت اور ریاضت ہی ہے ۔آخر میں چند اور قطعات ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔

تم ہو چغتائی کی پینٹنگ اے صنم
تم میں ہے اک تازگی،اک تمکنت
تم ہو رومانی غزل کا رنگ روپ
تم غزل ہو ،تم ہو سوز شعریت

کئی ہیں جھلملاتی آبشاریں
کئی ہیں ان میں سرتاپا بہاریں
ملی ہے جب انھیں راشد کی دعوت
آمڈ آئی ہیں پریوں کی قطاریں

دھیان تھا اک قطار پر لیکن
میری نظروں کی تار ٹوٹ گئی
اک ذرا سی پھوار پڑتے ہی
چیونٹیوں کی قطار ٹوٹ گئی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.